Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نوبل انعام یافتہ محمد یونس بنگلہ دیش کے عبوری حکومت کے سربراہ ہوں گے: صدراتی آفس

احتاجی تحریک چلانے والے طلبہ نے تین ماہ کے عرصے میں نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی
بنگلہ دیش کے صدارتی آفس کا کہنا ہے کہ نوبل انعام یافتہ نامور بینکار محمد یونس ملک میں عبوری حکومت کے سربراہ ہوں گے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدارتی ترجمان کا کہنا تھا کہ یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کرنے کا فیصلہ ایوان صدر میں صدر، آرمی کی قیادت اور ‘سٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمنیشن‘ کے رہنماؤں کے اجلاس میں کیا گیا۔
قبل ازیں  محمد یونس نے کہا تھا کہ وہ ملک کی نئی عبوری حکومت کی سربراہی کے لیے تیار ہیں۔
محمد یونس نے حسینہ واجد کے وزرات عظمیٰ سے استعفے اور ملک سے چلے جانے کے ایک دن بعد منگل کو عبوری حکومت سنبھالنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
بنگلہ دیش میں مائیکرو فنانسنگ کے بانی 84 سالہ ڈاکٹر محمد یونس کو لاکھوں افراد کو غربت سے نکالنے کی بنیاد پر سراہا جاتا ہے اور بنگلہ دیش کے عوام میں ان کا خاص احترام پایا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش میں احتجاج کرنے والے طلبہ نے نئی عبوی حکومت کے سربراہ کے لیے محمد یونس کا نام تجویز کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ فوجی پشت پناہی کی حامل کوئی حکومت تسلیم نہیں کریں گے۔
ڈاکٹر محمد یونس نے بھی اے ایف پی سے گفتگو  کرتے ہوئے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’اگر بنگلہ دیش کے لیے اور میرے ملک کے شہریوں کے لیے میری ضرورت ہے تو میں اس کے لیے تیار ہوں۔‘
76 سالہ حسینہ واجد سنہ 2008 سے مسلسل اقتدار میں تھیں اور رواں برس جنوری میں ہونے والے عام انتخابات میں ان پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
اس کے بعد جولائی میں لاکھوں افراد کے کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد حسینہ واجد کو مستعفی ہو کر ملک چھوڑنا پڑا۔

ڈاکٹر محمد یونس کو لاکھوں افراد کو غربت سے نکالنے کی بنیاد پر سراہا جاتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بنگلہ دیش کے آرمی چیف وقار الزماں نے پیر کو وزیراعظم کے استعفے اور نئی عبوری حکومت بنانے کا اعلان کیا اور کہا کہ ’اب تشدد کا سلسلہ رک جانے کا وقت ہے۔‘
منگل کو صدر شہاب الدین نے بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کو طلبہ تحریک اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے مطالبے کے مطابق تحلیل کر دیا۔
طلبہ نے تین ماہ کے عرصے میں نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
احتجاج کرنے والے طلبہ کے اتحاد سٹوڈںٹس اگیسنٹ ڈسکریمینیشن (ایس اے ڈی) کے ایک مرکزی رہنما آصف محمود نے اپنی فیس بک پر لکھا کہ ’ہمیں ڈاکٹر یونس پر بھروسہ ہے۔‘
فوج میں تبادلے اور برطرفیاں
دوسری جانب فوج نے منگل کو کئی جرنیلوں کے تبادلے کیے ہیں اور حسینہ واجد کے قریب سمجھے جانے والے کچھ آفیسرز کو معزول کیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی پابندی کی شکار پیرا ملٹری فورس ریپڈ ایکشن بٹالین کے کمانڈر زین الاحسن کو بھی عہدے سے برطرف کیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش کے ایوان صدر اور بی این پی کے بیان کے مطابق کئی برس سے قید کی سزا کاٹنے والی سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کو بھی رہا کر دیا گیا ہے۔
منگل کو بنگلہ دیش کا دارالحکومت مجموعی طور پر پرامن رہا۔ ٹریفک جزوی طور پر بحال ہوئی، دکانیں بھی کھلنا شروع ہوئیں جبکہ کچھ انٹرنیشنل پروازیں بھی ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اتریں لیکن اکثر سرکاری دفاتر بند ہی رہے۔

لاکھوں افراد کے کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد حسینہ واجد کو مستعفی ہو کر ملک چھوڑنا پڑا (فوٹو: اے ایف پی)

اس سے قبل پیر کو جب آرمی چیف نے وزیراعظم حسینہ واجد کے استعفے کا اعلان کیا تو لاکھوں افراد جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے اور کچھ افراد نے حسینہ واجد کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل ہو کر سامان بھی لوٹا۔
21 سالہ ساجد احنف نے حالیہ تحریک کا 1971 کی جنگ آزادی سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں  آمریت سے نجات ملی ہے۔‘
پولیس نے کہا ہے کہ ہجوم نے انتقام کے لیے حسینہ واجد کے حامیوں پر حملے کیے۔ انہوں نے پولیس کے دفاتر کے ساتھ ساتھ ایک جیل توڑ کر 500 سے زیادہ قیدیوں کو بھی رہا کروا لیا۔
پولیس اہلکاروں اور حکام نے اے ایف پی کو بتایا کہ پیر کا دن اس احتجاجی لہر کا مہلک ترین دن تھا اور اس کے بعد منگل کو بھی 10 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ ان احتجاجی مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 432 تک پہنچ گئی ہے۔
سیاسی قیدیوں کی رہائی
بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت پر سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات تسلسل کے ساتھ عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

کچھ افراد نے حسینہ واجد کی سرکاری رہائش گاہ میں داخل ہو کر سامان بھی لوٹا (فوٹو: اے ایف پی)

حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے اگلے دن منگل کو سینکڑوں سیاسی قیدیوں کی مائیں ڈھاکہ میں ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کی عمارت کے سامنے اپنے پیاروں کی رہائی کے لیے جمع ہوئیں۔
ایم آئی کی عمارت کے سامنے موجود ایک خاتون سنجیدہ اسلام تولی نے کہا کہ ’ہمیں جواب چاہیے۔‘
حسینہ واجد کا انڈیا میں مستقبل
دوسری جانب حسینہ واجد کا انڈیا میں مستقبل بھی خدشات کا شکار ہے۔
اے ایف پی کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ وہ حسینہ واجد برطانیہ جانا چاہتی تھیں لیکن برطانوی حکومت کی جانب سے غیرمعمولی ’تشدد‘ کی اقوام متحدہ کی سربراہی میں تحقیقات کے مطالبے کے بعد ان کا یہ منصوبہ خدشات کا شکار ہو گیا۔

جب آرمی چیف نے وزیراعظم حسینہ واجد کے استعفے کا اعلان کیا تو شہری جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے (فوٹو: اے ایف پی)

انٹرنیشنل کرائسز گروپ سے وابستہ تھامس کیان نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کے نئے حکام کو بڑا چیلنج درپیش ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ’اب جو عبوری حکومت اقتدار سنبھالے گی، اس کے سامنے جمہوریت کا قیام جو کہ کئی برس سے بری طرح متاثر ہوئی، طویل المدت ہدف ہو گا۔‘

شیئر: