گذشتہ چند برسوں میں پاکستان کی سٹریٹ چلڈرن فٹبال ٹیم نے عالمی سطح پر نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
کراچی کے پسماندہ علاقے ماڑی پور کے رہائشی محمد علی کا شمار بھی ان نوجوانوں میں ہوتا ہے جو سٹریٹ چلڈرن سے منسلک ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے انتھک محنت کررہے ہیں۔
وہ پاکستان کے ان نوجوانوں میں شامل ہیں جن کو ان کی صلاحیتوں کی بنا پر منتخب کیا گیا ہے۔
محمد علی کہتے ہیں کہ جب انہیں سٹریٹ چلڈرن ٹیم میں منتخب کیا گیا اس وقت وہ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ انہیں اس طرح فٹبال کھیلنے کا موقع ملے گا۔
’جس علاقے سے ہمارا تعلق ہے وہاں سڑکیں نہیں تو فٹبال کے میدان کیسے ہوں گے؟ گھر کے حالات ایسے ہیں کہ دو وقت کی روٹی کے لیے سب کو مزدوری کرنی پڑتی ہے، پاؤں میں پہننے کے لیے جوتا نہیں تھا، ننگے پاؤں پتھریلی زمین پر فٹبال کھیلتے تھے۔‘
محمد علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک روز ماڑی پور میں باہر سے ایک کوچ آئے اور مجھے فٹبال کھیلتے دیکھا، میرے کوچ جو ہمارے علاقے سے ہی ہیں ان سے بات کی اور مجھے ٹرائل کے لیے کلفٹن میں ایک گراونڈ بلوایا، میں نے بڑے کوچز کے سامنے اپنا کھیل پیش کیا جو انہیں بہت پسند آیا اور انہوں نے مجھے سٹریٹ چلڈرن ٹیم میں رکھ لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ میرے لیے ایک شاندار موقع تھا کہ میں اپنے کھیل سے پاکستان کی ٹیم میں اپنی جگہ بنا لوں، میں نے پورا زور لگایا اور 40 بچوں میں سے 11 میں شامل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔‘
’جس نے کبھی کراچی سے باہر کوئی شہر نہ دیکھا ہو اسے پہلے اسلام آباد اور پھر آزاد کشمیر جانے کا موقع ملا، اس سفر نے میرے حوصلے اور بلند کر دیے، پہلی بار جب ہم انٹرنیشنل کھیلنے کے لیے قطر گئے تو جہاز کے سفر سے لے کر وہاں کے میدانوں تک ہمارے لیے ہر لمحہ ایک نیا سبق تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہم نے اپنے کھیل سے قطر میں فائنل تک اپنی جگہ بنائی، اس کے بعد اگلے سال ناروے میں بھی ہم فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے یہ ہمارے لیے تاریخی لمحے تھے جنہیں ہم کبھی نہیں بھول سکتے ہیں۔
سٹریٹ چلڈرن فٹبالرز کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟
کراچی یونائیٹڈ میں سٹریٹ چلڈرن کو تربیت دینے والے کوچ شیخ ہمدان کا کہنا ہے سٹریٹ چلڈرن ٹیم کا انتخاب ملک بھر سے کیا جاتا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو ان کے کھیل کے حساب سے مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے، اچھا کھیل پیش کرنے والے بچوں کا انتخاب کیا جاتا ہے، پھر انہیں ایک ٹیم کے طور پر پریکٹس کرائی جاتی ہے، جہاں انہیں عالمی معیار کی تربیت دی جاتی ہے اور انہیں انٹرنیشنل لیول پر کھیلنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان میں بیشتر بچوں کا تعلق ایسے علاقوں سے ہوتا ہے جہاں وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ آگے نہیں بڑھ پا رہے ہوتے ہیں۔
پسماندہ علاقوں کے ہنرمند بچے
کوچ شیخ ہمدان کا کہنا تھا کہ ان میں اکثر بچے ایسے ہیں جن کے پاس بڑے فٹبال کلبوں میں شمولیت کے لیے وسائل نہیں ہوتے، لیکن ان کی مہارت اور عزم انہیں عالمی سطح پر کامیاب بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پسماندہ علاقوں کے بچے جو کھیل میں بھرپور ٹیلنٹ رکھتے ہیں، ان کی محنت اور لگن کے باعث ان کی کہانیاں دل کو چھو لینے والی ہیں۔
ماضی میں سٹریٹ فٹبال میں پاکستان کی کامیابیاں
پاکستانی بچوں نے ماضی میں کئی بار فٹبال کے میدان میں عمدہ کھیل پیش کیا ہے۔ ان کی کامیابیاں اور شاندار کھیل اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ اگر ان بچوں کو مناسب سپورٹ اور مواقع فراہم کیے جائیں، تو ان میں عالمی سطح پر کامیابی حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت ہے۔
حال ہی میں ناروے میں ہونے والے سٹریٹ چلڈرن فٹبال ٹارنامنٹ میں پاکستان کی ٹیم دوسرے نمبر پر رہی ہے، اس سے قبل قطر اور ناروے میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں بھی پاکستانی ٹیم دوسری پوزیشن پر ہی رہی تھی۔
فٹبال کے شائقین اور ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ان بچوں کی تربیت اور معاونت کی جائے تو یہ عالمی کپ تک پہنچنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
اس حوالے سے فٹبال کوچ شیخ ہمدان کا کہنا تھا کہ سٹریٹ چلڈرن میں موجود ٹیلنٹ کو نکھارنے کی ضرورت ہے۔
’ٹیلنٹ دنیا بھر میں ایک جیسا ہوتا ہے، لیکن کچھ ممالک ایسے ہوتے ہیں جو اس ٹیلنٹ کو نکھارتے ہیں اور انہیں باقیوں سے منفرد بنا دیتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ان بچوں کے پاس قدرتی صلاحیت ہے، جسے درست سمت میں رہنمائی اور تربیت کے ذریعے ترقی دی جا سکتی ہے۔