Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان نے پارٹی سرگرمیوں سے کنارہ کشی کیوں اختیار کر لی؟

عامر خان کو 10 رکنی کمیٹی میں بھی شامل نہیں کیا گیا جس سے پارٹی میں اُن کا کردار مزید محدود ہو گیا ہے (فائل فوٹو: سکرین گریب)
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیئر رہنما عامر خان جو کبھی پارٹی کی سیاست میں کافی متحرک تھے، حالیہ دنوں میں سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں۔ 
حالیہ تنظیمی تبدیلیوں کے بعد قائم کی گئی 10 رکنی کمیٹی میں بھی انہیں شامل نہیں کیا گیا، جس نے پارٹی کے اندر اُن کے کردار کو مزید محدود کر دیا ہے۔
ایم کیو ایم کے ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عامر خان فی الحال زیادہ وقت دبئی میں گزار رہے ہیں، اس کے علاوہ وہ اپنی فیملی اور کاروبار کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
عامر خان نے حال ہی میں سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے بھی ملاقات کی ہے، جس سے مستقبل میں سیاست میں ان کے کردار کے حوالے سے قیاس آرائیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔
کراچی میں موجود ہونے کے باوجود عامر خان ایم کیو ایم پاکستان کے کسی بھی تنظیمی اجلاس یا تقریب میں شریک نہیں ہو رہے۔ 
اس صورت حال نے پارٹی کے اندر ان کی غیر موجودگی پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ تاہم چند دن قبل وہ سابق رکن اسمبلی عباس جعفری کے گھر نیاز کی تقریب میں شریک ہوئے تھے جہاں انہوں نے سیاسی گفتگو سے اجتناب کیا۔
کیا عامر خان سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کے قریب ہوگئے ہیں؟
ایم کیو ایم کے سابق سینیئر ڈپٹی کنوینر عامر خان کچھ عرصہ قبل دبئی میں سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کی تھی۔
 اس ملاقات میں بابر غوری سمیت ایم کیو ایم کے دیگر رہنما بھی شریک تھے، عشرت العباد کے ملکی سیاست میں فعال ہونے کے بعد یہ بات زور پکڑ رہی ہے کہ وہ ماضی میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو ساتھ ملا کر ایک نئی پارٹی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تاہم عامر خان یا عشرت العباد کی جانب سے اس بارے میں کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا۔    
 کیا عامر خان پارٹی کی تنظیمی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر فعال ہے؟
ایم کیو ایم پاکستان میں حالیہ دنوں میں تنظیمی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ رابطہ کمیٹی کے نظام کو ختم کر کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے نظام کو فعال کیا گیا ہے۔

کراچی میں موجود ہونے کے باوجود عامر خان پارٹی کی کسی بھی تقریب میں شریک نہیں ہو رہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 اس کے تحت نئی کمیٹی کے ارکان کی فہرست میں عامر خان کو جگہ نہیں دی گئی ہے۔ یہ تبدیلیاں پارٹی کے اندرونی امور پر گہرا اثر ڈال رہی ہیں، اور عامر خان کی غیر موجودگی نے ان تبدیلیوں کی شدت کو مزید بڑھا دیا ہے۔
گورنر اور سینیٹر بننے کے خواہش مند عامر خان تنظیمی ذمہ داریوں سے بھی محروم
عامر خان کا نام گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی جگہ گورنرشپ کے لیے سامنے آیا تھا، تاہم پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اعتراضات سامنے آنے کے بعد ان کا نام فائنل نہیں ہوسکا۔ 
اسی طرح سینیٹ کے انتخابات سے قبل بھی عامر خان نے کوشش کی کہ وہ کسی طرح ایوان بالا کے رکن منتخب ہوسکیں لیکن یہاں بھی انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
سینیٹر اور گورنرشپ نہ ملنے کے بعد عامر خان کو تنظیمی معاملات میں بھی خاطر خواہ توجہ نہیں مل سکی۔
ایم کیو ایم کے تنظیمی اجلاسوں کی آڈیو لیک ہونے کے معاملے پر پارٹی نے رابطہ کمیٹی کو تحلیل کرتے ہوئے نیا تنظیمی ڈھانچہ فعال کرنے کا فیصلہ کیا۔
 نئے سیٹ اپ میں عامر خان کو شامل نہ کرنے پر انہوں نے تنظیمی سرگرمیوں سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔

عامر خان ڈاکٹر عشرت العباد سے بھی ملاقات کر چکے ہیں جس سے قیاس آرائیاں مزید بڑھ گئی ہیں (فائل فوٹو: عشرت العباد فیس بُک)

کیا صرف عامر خان ہی غیر فعال ہیں؟
 ایم کیو ایم پاکستان میں عامر خان اور سابق میئر کراچی اور ڈپٹی کنوینر وسیم اختر بھی تنظیمی معاملات میں غیر فعال نظر آتے ہیں۔ 
ان کے علاوہ کئی دیگر اہم رہنماؤں نے بھی متحدہ قومی موومنٹ سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے، ماضی میں اہم عہدوں اور اعلٰی ایوانوں کا حصہ رہنے والے کئی رہنما اب یا تو پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ بن چکے ہیں یا پھر پاکستان تحریک انصاف سے جُڑ گئے ہیں، جبکہ بیشتر سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے گھر بیٹھ گئے ہیں۔
’عامر خان نجی مصروفیات کی وجہ سے پارٹی کے پروگراموں میں شریک نہیں ہوئے‘
 ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما سید امین الحق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عامر خان ایم کیو ایم پاکستان کا حصہ ہیں۔ بعض نجی مصروفیات کی وجہ سے وہ پارٹی کے کچھ پروگراموں میں شریک نہیں ہوسکے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اپنی مصروفیات سے فراغت کے بعد وہ ایم کیو ایم کی تقریبات میں شرکت کریں گے۔ عامر خان خان پارٹی کے سینیئر رہنما ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم ایک عوامی جماعت ہے۔ ہمارے ہاں لیڈر اور کارکنوں میں فرق نہیں کیا جاتا۔ سندھ میں بسنے والے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایم کیو ایم اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ 

 مبصرین کے مطابق ’مصطفیٰ کمال کے واپس آنے کے بعد کئی رہنما گھر بیٹھ گئے ہیں‘ (فائل فوٹو: ایم کیو ایم فیس بُک)

سیاسی مبصرین کیا کہتے ہیں؟
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ 1980 کی دہائی میں وجود میں آنے والی ایم کیو ایم اور آج کی ایم کیو ایم میں زمین آسمان کا فرق ہے، مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی جماعت کہلانے والی جماعت کے رہنما آج سندھ کے کسی وڈیرے سے مختلف نظر نہیں آتے۔
یہ تنظیم اب سیاسی جماعت بن گئی ہے جس میں گروپ بندی ہے، ایک گروپ دوسرے گروپ سے آگے بڑھنے کی کوشش میں ہے۔
سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق ’ایم کیو ایم پاکستان میں پی ایس پی کے ضم ہونے کے بعد کئی رہنما سیاسی سرگرمیوں سے الگ ہوچکے ہیں، ان میں کئی بڑے نام شامل ہیں جو ماضی میں کئی اہم ذمہ داریوں پر فائز رہ چکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سید مصطفیٰ کمال کے ایم کیوایم کے معاملات کو ٹیک اوور کرنے پر کئی رہنما یا تو دیگر جماعتوں کا حصہ بن گئے ہیں یا پھر گھر بیٹھ گئے ہیں۔‘
سیاسی تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’موجود ایم کیو ایم ماضی کی ایم کیو ایم سے بالکل مختلف ہے، اس وقت جو لوگ ایم کیو ایم کو لیڈ کر رہے ہیں ان کی پالیسی الگ ہے۔‘

شیئر: