Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ کے رہائشی مہینوں ایک ہی کپڑے پہننے اور جوتے شیئر کرنے پر مجبور

غزہ کے شہریوں کے پاس کپڑے دھونے کے لیے صابن بھی نہیں ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
صفا یاسین نے کئی ماہ سے اپنی بچی کو سفید رنگ کے ایک ہی کپڑے پہنا رکھے ہیں اور یہ کہانی غزہ کی پٹی میں رہنے والی ہر ماں اور ہر شخص کی ہے جو دس ماہ سے تباہ کن جنگ کو جھیل رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کو صفا یاسین نے بتایا کہ جب وہ حاملہ تھیں تو انہوں نے خواب میں اپنی بیٹی کو خوبصورت کپڑوں میں دیکھا لیکن اب جب وہ دنیا میں آ گئی ہے تو اسے پہنانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
صفا یاسین غزہ پٹی کے جنوبی علاقے المواسی میں پناہ لیے ہوئے ہیں جو اسرائیلی فوج کی جانب سے انسانی زون قرار دیا گیا ہے۔
’جنوبی علاقے کو نقل مکانی کرتے ہوئے جو چند کپڑے میں ساتھ لا سکی تھی وہ یا تو غلط سائز کے تھے اور یا پھر اس موسم کے لیے مناسب نہیں تھے۔‘
اسرائیلی فوج کی جانب سے محصور شہر غزہ میں رہنے والی 24 لاکھ آبادی کے لیے کپڑے لینا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
خیال رہے کہ چند سال پہلے تک غزہ میں پھلتی پھولتی ٹیکسٹال انڈسٹری ہوا کرتی  تھی لیکن 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے تمام انفراسٹرکچر تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں غزہ کی پٹی میں تقریباً 900 ٹیکسٹائل فیکٹریاں ہوا کرتی تھیں۔
غزہ کے ٹیکسٹائل سکیٹر سے 35 ہزار لوگوں کا روزگار جڑا ہوا تھا اور ہر ماہ 40 لاکھ اشیا اسرائیل بھجوائی جاتی تھیں۔ لیکن 2007 میں حماس کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر پابندیاں عائد کر دیں جس کے نتیجے میں برآمدات بھی کم ہو گئیں۔
گزشتہ چند سالوں میں غزہ میں موجود ورک شاپس کی تعداد بھی کم ہو کر ایک سو رہ گئی ہے جن کے ساتھ 4 ہزار افراد کا روزگار جڑا ہوا تھا اور جو ہر ماہ اسرائیل اور مغربی کنارے کو 30 سے 40 ہزار اشیا برآمد کرتی تھیں۔

غزہ کے رہائشی اپنے جوتے ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے پر مجبور ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ورلڈ بینک کے ایک اندازے کے مطابق حالیہ جنگ شروع ہونے کے تین ماہ بعد ہی جنوری میں غزہ کا پرائیویٹ شعبہ 79 فیصد جزوی یا مکمل تباہ ہو کر رہ گیا تھا۔
جنگ سے متاثرہ فاتن جدا کو بھی اپنے 15 ماہ کے بچے کے لیے کپڑوں کی تلاش رہتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا روز بروز بڑا ہو رہا ہے اور پچھلے کپڑے چھوٹے ہو گئے ہیں لیکن نئے کہیں سے نہیں مل رہے۔
اسی طرح سے 29 سالہ المصری جو خان یونس میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ان کے پاس فالتو جوتوں یا کپڑوں کا کوئی جوڑا نہیں ہے۔
’میرے جوتے پوری طرح پھٹ چکے ہیں۔ میں انہیں کم از کم 30 مرتبہ سلوا چکا ہوں اور ہر مرتبہ دس گنا زیادہ پیسے دیے۔‘
انہوں نے بتایا کہ فی الحال انہیں صرف صابن کی تلاش ہے تاکہ وہ اپنی واحد پینٹ اور ٹی شرٹ دھو سکیں۔
’میں نے یہ کپڑے پچھلے 9 ماہ سے پہن رکھے ہیں۔ میرے پاس اور کچھ نہیں ہے۔ میں جلدی سے اپنی ٹی شرٹ دھوتا ہوں اور پھر اس کے سوکھنے کا انتظار کرتا ہوں، وہ بھی کسی صابن یا سرف کے بغیر۔‘ 
جنگ شروع ہونے سے پہلے بھی غزہ کی دو تہائی آبادی غربت میں ہی رہ رہی تھی اور جنگ شروع ہونے کے بعد اکثر شہری اپنے کپڑے بیچنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

 شہری المصری کا کہنا ہے کہ 30 مرتبہ وہ اپنا جوتا سلوا چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

25 سالہ فلسطینی عمر ابو ہاشم کا کہنا ہے کہ اب تو بیچنے کے لیے نہ جوتے اور نہ کپڑے رہے ہیں۔
ابو ہاشم نے بتایا کہ وہ اپنے جوتوں کا واحد جوڑا اپنے بہنوئی کے ساتھ بھی شیئر کرتے ہیں اور ایسے میں اگر باہر نکلنا پڑ جائے تو وہ انتہائی احتیاط سے خود کو گند کے ڈھیر سے بچاتے ہوئے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین کی سربراہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیا تھا کہ ’کچھ خواتین نے دس ماہ سے ایک ہی سکارف پہن رکھا ہے۔‘
ایک ہی کپڑے مسلسل پہنے رکھنا صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے جبکہ پانی کی کمی کے باعث کپڑے نہ دھونے سے بھی کیڑے پڑ جانے کی شکایت رہتی ہے۔

شیئر: