Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ سے انخلا کے نئے اسرائیلی احکامات کے بعد جنگ بندی مذاکرات کا دوسرا روز

غزہ میں دس ماہ سے جاری جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بین الاقوامی ثالثوں کے درمیان مذاکرات آج دوبارہ قطر میں متوقع ہیں۔ گزشتہ روز جمعرات کو مذاکرات کے نئے دور کا آغاز ہوا تھا جس کا مقصد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو روکنا اور متعدد یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ثالثوں کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس جو مذاکرات میں براہ راست شامل نہیں ہے، ان کو پیش رفت سے آگاہ کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے مذاکرات کو ایک اہم اقدام قرار دیا اور کہا کہ ’دیگر رکاوٹیں بھی عبور کی جاسکتی ہیں اور ہمیں اس تمام عمل کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔‘
کئی مہینوں سے جاری رہنے والے مذاکرات بنیادی اختلافات دور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ امن صرف اس صورت میں ممکن ہو گا جب حماس کو تباہ کر دیا جائے اور حماس کا کہنا ہے کہ وہ عارضی کے بجائے مستقل جنگ بندی قبول کرے گا۔
جمعرات کی رات گئے اسرائیلی فوج نے غزہ کے مختلف مقامات کو نشانہ بنایا اور اُن علاقوں کو خالی کرنے کے نئے احکامات جاری کیے جو اس سے پہلے شہریوں کے لیے محفوظ قرار دیے گئے تھے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ حماس نے ان علاقوں کو اسرائیل پر گولے اور راکٹ مارنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
دارالحکومت دوحہ میں امریکہ، قطر اور مصری حکام نے اسرائیلی وفد سے ملاقات کی جس میں حماس نے براہ راست شرکت نہیں کی تھی۔
جمعرات کی رات گئے حماس کے پولٹ بیورو کے رکن حسام بادران نے کہا کہ اسرائیل کے تسلسل سے آپریشن جنگ بندی میں پیش رفت کے لیے رکاوٹ ہیں۔
مذاکرات میں اسرائیلی وفد میں خفیہ ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا، اندرونی سکیورٹی سروس کے سربراہ رونر بار اور یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت کے لیے جنرل نٹزن ایلن شامل ہیں۔
جبکہ امریکہ کی جانب سے خفیہ ایجنسی کے سربراہ بل برنز اور مشرق وسطیٰ کے لیے نمائندے بریٹ میک گرک شرکت کر رہے ہیں۔
قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی اور مصر کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ عباس کمال بھی مذاکرات کا حصہ ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ جمعے تک مذاکرات جاری رہنے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے کی پیچیدگی کے پیش نظر ابھی بہت سا کام باقی ہے اور مذاکرات کار اس کے نفاذ پر توجہ دے رہے ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی ممکنہ طور پر پورے خطے میں کشیدگی کو کم کر دے گی۔ سفارت کاروں کو امید ہے کہ یہ ایران اور حزب اللہ کو اس بات پر آمادہ کرے گی کہ جوابی کارروائی نہ کریں۔
جان کربی نے کہا کہ ایران نے تیاریاں کر لی ہیں اور وہ جلد ہی بغیر کسی وارننگ کے حملہ کر سکتا ہے اور اس کے بیانات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔
حماس نے اسرائیل کے ان حالیہ مطالبات کو مسترد کر دیا تھا جن میں مصر کے ساتھ سرحد کے ساتھ دیرپا فوجی موجودگی اور غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی لائن شامل ہے۔
حماس کے ترجمان اسامہ ہمدان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ تنظیم صرف بائیڈن کی تجویز پر عمل درآمد کے لیے مذاکرات میں دلچسپی رکھتی ہے نہ کہ اس کے مواد پر مزید بات چیت میں۔

فلسطینی شہری جنگ کی وجہ سے مشکل حالات میں زندگی کزار رہے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

غزہ میں دس ماہ سے جاری جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 40 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
اقوام متحدہ نے غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پناہ گاہوں میں نامناسب صورتحال کی وجہ سے ’بچوں پر رات کو چوہے اور کیڑے مکوڑے حملہ‘ کر دیتے ہیں۔
جعمرات کو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے کہا تھا کہ غزہ میں روزانہ تقریباً 130 لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے مکانات، ہسپتالوں، سکولوں اور عبادت گاہوں کی  اس سطح پر تباہی انتہائی افسوسناک ہے۔
ایک انسانی ہمدردی کی ٹیم جو جمعرات کو خان ​​یونس کے دو مقامات پر پہنچنے اور بے گھر خاندانوں سے بات چیت کرنے میں کامیاب رہی، نے کہا ہے کہ اس نے وہاں کھانے پینے کی اشیا کی قلت اور مہنگائی دیکھی۔
ٹیم کے مطابق صفائی اور حفظان صحت کی مصنوعات کی کمی جلد کے انفیکشن کا سبب بن رہی ہے جس سے خاص طور پر بری طرح  سے بچے متاثر ہو رہے ہیں۔  
ٹیم نے کہا کہ ’بے گھر ہونے والے خاندانوں کو اپنی پناہ گاہیں خود تعمیر کرنی پڑتی ہیں جو بھی کپڑے، لکڑی کے ٹکڑے یا کارٹن دستیاب ہوں، وہ اس سے خود بناتے ہیں۔‘
ٹیم نے مزید کہا کہ ’بچوں پر رات کے وقت چوہے اور کیڑے مکوڑے حملہ کرتے ہیں کیونکہ پناہ گاہوں کی صوتحال خراب ہے۔‘

شیئر: