برطانیہ میں حالیہ فسادات کے بعد 75 فیصد مسلمان خوفزدہ ہیں: سروے
برطانیہ میں حالیہ فسادات کے بعد 75 فیصد مسلمان خوفزدہ ہیں: سروے
اتوار 18 اگست 2024 20:17
گذشتہ دہائی سے یہاں نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ فائل فوٹو اے ایف پی
برطانیہ میں مسلم خواتین کے نیٹ ورک کے سروے کے مطابق ملک میں انتہائی دائیں بازو کی جانب سے فسادات اور پرتشدد مظاہرون کے بعد ملک کے تین چوتھائی مسلمان اپنی حفاظت کے لیے فکر مند ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق صرف 16 فیصد نے کہا کہ وہ حالیہ نسلی فسادات سے پہلے بھی ایسا ہی محسوس کرتے تھے۔
سروے میں تقریباً 20 فیصد نے کہا کہ 30 جولائی کو ساؤتھ پورٹ میں ہونے والے ہنگامے سے پہلے بھی انہیں برطانیہ میں پرتشدد صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
برطانیہ کے شمال مغربی علاقے ساؤتھ پورٹ میں ایک ڈانس کلب میں ہونے والے چاقو کے حملے میں تین لڑکیاں ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئی تھیں جس کے بعد انگلینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عناصر نے فسادات اور پرتشدد مظاہرے شروع کیے تھے۔
سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی غلط معلومات نے ڈانس کلب پر ہونے والے حملے کو مختلف طریقوں سے ایک مسلمان یا پناہ گزین تارکین وطن سے منسوب کیا لیکن بعد میں مبینہ حملہ آور کی شناخت 17 سالہ ایگزل رداکوبانا کے نام سے ہوئی جو کارڈف میں پیدا ہوا تھا۔
اس حملے کے بعد شروع ہونے والے فسادات برطانیہ کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی پھیل گئے جب کہ متعدد مقامات پر مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔
فسادیوں کی طرف سے نشانہ بننے والی لیورپول کی عبداللہ کوئلیم مسجد میں پناہ لینے والی دو مسلمان خواتین نے سکائی نیوز کو ایک انٹرویو میں برطانیہ میں موجودہ حالات کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
ایک 26 سالہ طالبہ لیلا ٹیمیا نے بتایا ہے ’ ہمیں تقریباً یہ احساس تھا کہ پولیس ہماری حفاظت نہیں کر رہی اس لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ مسلم کمیونٹی سے اظہار یکجہتی ہو۔
جمعہ کے روز لندن میں غیر مسلم کمیونٹی کی اچھی خاصی تعداد مسجد کی حفاظت کے لیے نکلی تھی۔
لندن میں مقیم 29 سالہ شاعرہ آمنہ عتیق نے سکائی نیوز کو بتایا مجھے ایسا لگا کہ ہمیں ایک مسلمان خاندان کے طور پر تین چھوٹی بچیوں کے لیے افسوس کرنے کا موقع نہیں ملا۔
مسلم خواتین کے نیٹ ورک کی سی ای او شائستہ گوہر نے سکائی نیوز کو بتایا ’ گذشتہ دہائی سے یہاں نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور ایسے جرائم کافی عرصہ سے ہو رہے ہیں۔
شائستہ گوہر نے مزید کہا ’نفرت پر مبنی ایسے جرائم کی قانون سازی کو میں 'دشمنی' کی اصطلاح سے دیکھتی ہوں۔
چیریٹی ہیلپ لائن قائم کی جا رہی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خاص طور پر مسلم خواتین کو معاشرے کے لیے نفرت انگیز جرائم کی رپورٹ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ پریشان کن ہے جب خواتین کہہ رہی ہیں 'ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی جب کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ تھیں'۔