’مسلمانوں کو اُکسانے کی کوشش‘، برطانیہ میں 20 سال بعد ایک مرتبہ پھر نسلی فسادات
’مسلمانوں کو اُکسانے کی کوشش‘، برطانیہ میں 20 سال بعد ایک مرتبہ پھر نسلی فسادات
جمعہ 9 اگست 2024 11:15
تین بچیوں کے قتل کے بعد برطانیہ کے مختلف شہریوں میں امیگریشن اور اسلام مخالف مظاہرے شروع ہو گئے۔ فوٹو: اے ایف پی
برطانیہ میں 20 سال پہلے بھی نسل پرستی پر مبنی فسادات پھوٹ پڑے تھے جب دائیں بازو کے انتہاپسند عناصر نے کشیدگی کو ہوا دی اور اقلیتوں نے تحفظ کی عدم فراہمی کا ذمہ دار پولیس کو ٹھہرایا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مئی 2001 میں شمالی برطانیہ میں شروع ہونے والے فسادات کی تلخ یادیں ابھی بھی وہاں کے رہائشیوں کے ذہنوں میں پیوست ہیں۔
گریٹر مانچسٹر کے علاقے اولڈھم میں پھوٹنے والے پرتشدد فسادات بریڈ فارڈ، لیڈز اور برنلے تک پھیل گئے تھے۔ فسادات پر قابو پانے کے بعد اولڈھم شہر میں بالخصوص سفید فام اور جنوبی ایشیائی کمیونٹی کے درمیان کئی عرصے تک حالات کشیدہ رہے اور معمول پر آنے میں وقت لگا تھا۔
خیال رہے کہ تقریباً دو ہفتے قبل ساحلی شہر ساؤتھ پورٹ میں چاقو کے حملے میں تین نوجوان بچیوں کی موت واقع ہوئی تھی جبکہ پانچ بچے شدید زخمی ہوئے تھے۔
سوشل میڈیا پر اس واقعے سے متعلق غلط معلومات پھیلائی گئیں اور کہا گیا کہ حملہ آور مسلمان پناہ گزین ہے، جس کے ردعمل میں ساؤتھ پورٹ، شمال مشرقی شہر ہارٹل پول اور لندن میں شروع ہونے والے پرتشدد مظاہرے دیگر شہروں میں بھی پھیل گئے۔
برنلے کے رہائشی نور میاں نے بیس سال پہلے کے تاریک دور کو دہراتے ہوئے بتایا کہ اس وقت وہ طالب علم تھے اور مسلمان کمیونٹی کے لیے یہ انتہائی مشکل وقت تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جلاؤ گھیراؤ کے علاوہ قریبی شہروں کے مقامی قبرستانوں میں موجود مسلمانوں کی قبروں کے کتبوں کو مسخ کیا گیا تھا اور مساجد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
نور میاں جو ایک مقامی مسجد کے سیکریٹری بھی ہیں نے بتایا کہ ایسا ہی واقع دوبارہ پیش آیا ہے جب پیر کو انہیں اطلاع دی گئی کہ ایک قبر پر پینٹ پھینکا گیا ہے۔
’جب میں قبرستان پہنچا تو وہاں پہلے سے کچھ فیملیز موجود تھیں جو انتہائی فکرمند نظر آئیں اور بہت زیادہ جذباتی بھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ کم از کم سات قبروں پر سلیٹی رنگ کا پیٹ پھینکا گیا ہے۔ مقامی پولیس اس واقعے کو نفرت پر مبنی جرم کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
نور میاں کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے مسلم کمیونٹی کے جذبات کو اکسانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ وہ ردعمل دیں، ’لیکن ہم سب کو پرامن رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
اس واقعے کے بعد سے برنلے کے مسلمانوں میں بھی خوف پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں شمالی علاقوں میں ہونے والے امیگریشن اور اسلام مخالف فسادات یہاں بھی نہ پھیل جائیں۔
نور میاں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی اہلیہ کی فکر رہتی ہے جب وہ حجاب پہن کر گھر سے باہر نکلتی ہیں جبکہ انہوں نے اپنے والد کو فی الحال مسجد جانے سے منع کر دیا ہے۔
’میں نے اس مسجد کی تعمیر میں مدد کی تھی۔ میں نے خود اینٹیں اٹھائیں۔ میں اس مسجد کا حصہ تھا لیکن اب مجھے اپنی فیملی کے تحفظ کا بھی سوچنا ہے۔‘
انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ برنلے حالیہ فسادات کا حصہ نہیں بنے گا۔
جبکہ برنلے سے تقریباً ایک گھنٹے کے فاصلے پر موجود رودھرم شہر حالیہ فسادات کی زد میں رہا ہے۔ اتوار کو سینکڑوں کی تعداد میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے پولیس پر حملہ کیا اور ہوٹل کو آگ لگا دی جہاں غیرملکی پناہ گزینوں کو ٹھہرایا ہوا تھا۔
کمیونٹی لیڈر امینہ بلیک نے بتایا کہ مسلمان خواتین میں بہت زیادہ خوف و ہراس پایا گیا ہے اور وہ حجاب پہن کر گھر سے باہر نکلنے میں خوف محسوس کرتی ہیں۔
حکومت نے عبادتگاہوں کے لیے اضافی سکیورٹی تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے اور پولیس مسلمان کمیونٹی کے ساتھ مل کر شہریوں کو پرامن رہنے پر زور دے رہی ہے۔