’ہم مسلمان پُرامن ہیں‘، برطانیہ میں ’پاکستانی ہیرو‘ کی متحد ہونے کی اپیل
’ہم مسلمان پُرامن ہیں‘، برطانیہ میں ’پاکستانی ہیرو‘ کی متحد ہونے کی اپیل
پیر 19 اگست 2024 6:29
ساؤتھ پورٹ میں بچیوں پر چاقو سے حملے کے بعد برطانیہ میں فسادات پھوٹ پڑے تھے (فوٹو:اے ایف پی)
لندن کے لیسٹر سکوائر میں بروقت مداخلت کر کے ماں اور بیٹی کو چاقو کے حملے سے بچانے والے پاکستانی نژاد سکیورٹی گارڈ نے برطانیہ میں حالیہ فسادات کے بعد متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق برطانیہ بھر میں یہ فسادات ساؤتھ پورٹ میں بچیوں پر چاقو سے حملے کے واقعے کے بعد پھوٹ پڑے تھے جو ایک ہفتے تک جاری رہے۔
29 جولائی کو برطانیہ کے شمال مغربی علاقے ساؤتھ پورٹ میں ایک ڈانس کلب میں ہونے والے چاقو کے حملے میں تین بچیاں ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئی تھیں جس کے بعد انگلینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عناصر نے فسادات اور پرتشدد مظاہرے شروع کیے تھے۔
سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی غلط معلومات نے ڈانس کلب پر ہونے والے حملے کو مختلف طریقوں سے ایک مسلمان یا پناہ گزین تارک وطن سے منسوب کیا لیکن بعد میں مبینہ حملہ آور کی شناخت 17 سالہ ایگزل رداکوبانا کے نام سے ہوئی جو کارڈف میں پیدا ہوا تھا۔
اس حملے کے بعد شروع ہونے والے فسادات برطانیہ کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی پھیل گئے جب کہ متعدد مقامات پر مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستانی نژاد سکیورٹی گارڈ عبداللہ نے گارڈین کو بتایا کہ ’ہر کوئی پریشان اور خوفزدہ تھا۔ وہ مسجد جانے سے ڈرتے تھے۔ خاص طور پر میرے دوست جو مانچسٹر اور شمال میں رہ رہے ہیں وہ زیادہ فکرمند تھے کیونکہ وہاں زیادہ مظاہرے ہو رہے تھے۔‘
عبداللہ جو اپنا پورا نام بتانا نہیں چاہتے، کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد سے ہے اور وہ پراجیکٹ مینجمنٹ میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے لیے برطانیہ چلے گئے تھے۔
فسادات تھمنے کے بعد عبداللہ کو ایک غیرمعمولی واقعے کا سامنا کرنا پڑا۔
لندن کے لیسٹر سکوائر میں 34 سالہ خاتون اور اُن کی 11 سالہ بیٹی پر چاقو سے حملہ کیا گیا تھا جس سے بیٹی شدید زخمی ہو گئی۔ عبداللہ جو قریبی چائے کی دُکان پر بطور سکیورٹی گارڈ فرائض انجام دے رہے تھے، فوراً حملہ آور کی جانب لپکے اور بہادری سے اُسے قابو کر لیا۔
جس کے بعد پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی اور ملزم کو گرفتار کر لیا۔ اس واقعے کے بعد سے عبداللہ وائرل ہو گئے اور سوشل میڈیا پر اُنہیں خاصی پذیرائی مل رہی ہے۔
عبداللہ نے انگلینڈ، شمالی آئرلینڈ اور ویلز میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے پُرتشدد فسادات کے دوران اپنی اور اپنی کمیونٹی کی حفاظت کے لیے گہری تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے اس (ساؤتھ پورٹ) واقعے کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی اس کا پاکستانی یا ایشیائی کمیونٹی سے کوئی تعلق ہے۔ اگر یہ ایک انفرادی فعل ہے تو ہمیں اسے انفرادی عمل سمجھتے ہوئے ہی اس سے نمٹنا چاہیے نہ کہ پوری برادری یا ایک مذہب کے طور پر اسے دیکھنا چاہیے۔‘
اس واقعے کے بعد عبداللہ کو اُن کی بہادری کی وجہ سے پاکستانی ہائی کمیشن سمیت بڑے پیمانے پر سراہا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’وہ کہہ رہے ہیں کہ شاباش عبداللہ، لیسٹر سکوائر کا ہیرو۔ ’میرے تمام رشتہ دار، دوست میرے (پاکستان میں) گھر جا رہے ہیں اور میرے والدین، بہن بھائیوں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ یہ بالکل عید کی طرح ہے، لوگ وہاں آ رہے ہیں اور جشن منا رہے ہیں کہ آپ کے بیٹے نے ہمارے ملک کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ (لیسٹر سکوائر) واقعے سے یہ ثابت ہوا کہ ہم مسلمان، ہم پاکستانی، ہم ایشیائی پُرامن ہیں۔ ہم یہاں لوگوں کو بچانے کے لیے ہیں۔ ہم یہاں انگریز برادری، اپنی برادری کی حفاظت کے لیے آئے ہیں۔ یہ ہمارا ملک ہے، ہم یہاں اپنی مرضی سے آئے ہیں اس لیے ہم محافظ ہیں، حملہ آور نہیں۔‘