Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عرب نژاد امریکی ووٹرز الیکشن کے دن بڑے تناظر پر نگاہیں مرکوز رکھیں‘

عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ 1985 میں عرب ووٹرز کی آگاہی کے لیے قائم کیا گیا تھا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
گو کہ عرب اور مسلم نژاد امریکیوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ نائب صدر کملا ہیرس اسرائیل کے غزہ پر حملے کو نہیں روک سکیں لیکن ایک اہم سیاسی جماعت کے رہنما نے عرب ووٹرز کو خبردار کیا ہے کہ وہ ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن (ڈی این سی) کی کارروائیوں کو وسیع تناظر کو مدنظر رکھنا نہ بھولیں۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ 1985 میں عرب ووٹرز کی آگاہی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس ادارے کے صدر جمیز زوگبے نے کہا ہے کہ عرب ووٹر کنونشن میں نہ حاصل ہونے والے اقدامات پر توجہ مرکوز رکھنے میں درست نہیں ہیں۔ اس اقدامات میں فلسطینی نمائندوں کو گفتگو سے روکنا بھی شامل ہے۔
رواں ہفتے کے ’دی رے ہنانیہ ریڈیو شو‘ کی ریکارڈنگ کے دوران جمیز زوگبے نے کہا کہ ڈی این سی میں ایک ڈیموکریٹ رہنما نے کہا کہ کملا ہیرس نے وہ کچھ کیا جو 1980 کے بعد سے کسی بھی اور صدر نے نہیں کیا اور وہ کنونشن میں لفظ ‘فلسطین‘ بولنا تھا۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ اس پر بات ہونی چاہیے تاکہ میڈیا اور ملک کے لوگ اس مسئلے کو زیادہ واضح انداز میں دیکھ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈی این سی میں کملا ہیرس کے جملے اہم تھے اور یہ کہ ’اس کنونشن میں فلسطین کی فتح ہوئی ہے۔‘
’تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اور ماضی کے صدور پر نگاہ ڈالیں، کسی ایک نے بھی کبھی ’فلسطین‘ کا نام لیا اور نہ ہی کسی نے خودارادیت کی بات کی۔ کملا ہیرس کے (فلسطین کی) مشکلات سے متعلق الفاظ غیرمعمولی تھے۔
’ہم تیز دوڑ کا حصہ نہیں ہیں، یہ میراتھن ہے اور اس بارے میں پیش رفت سست رفتار ہے۔ لیکن یہ ایک اگلا قدم ہے۔‘
جیمز زوگبے نے کہا کہ ڈی این سی میں فلسطین کی حامی آوازوں کو خاموش کرانے کی کوششوں نے درحقیقت انہیں زیادہ بلند کیا ہے۔
’جب آپ کسی حد پر پہنچ جائیں یا آپ کو نظرانداز کیا جائے تو آپ جیت جاتے ہیں۔ جب آپ کو ایک طرف دھکیل دیا جائے تب بھی جیت آپ ہی کی ہوتی ہے۔ کیونکہ انہوں نے فلسطینیوں کو بات نہیں کرنے دی۔ سوچیے پھر کیا ہوا؟ یہ اس کے بعد تین چار دن کے لیے نیوز سٹوری بن گئی۔‘
جیمز زوگبے نے کہا کہ ’میرے خیال میں کملا ہیرس کی مہم میں یہ ایک سٹریٹیجک غلطی ہوئی لیکن انہوں نے جو کیا اس سے فلسطینی آوازوں کو تقویت ملی۔ انہیں بولنے نہ دینے سے ان کی آواز مزید بلند ہو گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ اسرائیلیوں کے بعد فلسطینی نمائندوں کو بات نہ کرنے دینا ’بے وقوفانہ غلطی تھی لیکن ہم نے اس کا فائدہ اٹھایا‘ ہے۔‘
جیمز زوگبے نے مزید کہا کہ عرب نژاد امریکیوں کو ان امریکی شہریوں سے اچھے تعلقات رکھنے چاہییں جو ان کے حق میں بولتے اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ اس میں افریقی امریکنز جیسے اقلیتی گروپس بھی شامل ہیں جنہوں نے ہمیشہ فلسطین میں انصاف کے لیے آواز اٹھائی ہے۔

شیئر: