Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کی اے آئی پالیسی منظوری کے مرحلے میں، 10 لاکھ نوجوانوں کی تربیت کا ہدف

پاکستان کی اے آئی پالیسی کو حتمی شکل دینے کا کام گذشتہ سال جنوری میں شروع ہوا تھا۔ (فائل فوٹو: فری پکس)
سارہ احمد پاکستان کے ایک نجی تعلیمی ادارے میں اے لیول کی طالبہ ہیں۔ رواں سال انہوں نے گرمیوں کی چھٹیوں میں ملک کی ایک نامور یونیورسٹی میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے ایک مختصر کورس میں داخلہ لیا تا کہ وہ اس میدان میں رونما ہونے والی جدید تحقیق سے خود کو روشناس کروا سکیں۔
کورس کے پہلے دن جب شرکا اپنے غیرملکی ٹرینر سے اپنا تعارف کروا رہے تھے تو انہوں نے سارہ سے پوچھا کہ اس کورس میں داخلہ کیوں لیا ہے؟
سارہ نے بتایا کہ چونکہ آنے والے وقت میں اے آئی ہی ہر نظام سے منسلک ہو گی اس لیے وہ چاہتی ہیں کہ اس بارے میں زیادہ سے زیادہ سیکھ اور جان سکیں۔
اس کے جواب میں غیرملکی ٹرینر نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر آپ اے آئی میں واقعی کچھ کرنا چاہتی ہیں تو جتنا جلد ممکن ہو پاکستان چھوڑ دیں۔
ان کے مطابق پاکستان میں اے آئی کی تعلیم کا مستقبل زیادہ روشن نہیں اور اگر کسی نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں اعلٰی تعلیم یا بنیادی تربیت بھی حاصل کرنی ہے تو اسے چاہیے کہ غیرملکی تعلیمی اداروں میں داخلہ لے۔ 

اے آئی پالیسی منظوری کے مرحلے میں

دوسری طرف پاکستان کی حکومت نے طویل عرق ریزی کے بعد اب قومی اے آئی پالیسی کو حتمی شکل دی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ پالیسی اس ماہ (ستمبر 2024) کے آخر تک کابینہ سے منظور کروا لی جائے گی۔
اس پالیسی کی تیاری کے آخری مراحل میں اس میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان بین الااقوامی سطح پر مصنوعی ذہانت میں تعاون بڑھائے گا اور اس سلسلے میں خاطر خواہ اقدامات تجویز کرے گا۔
پاکستان کی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ممبر آئی ٹی جنید امام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ پالیسی کا حتمی مسودہ تیار ہو چکا اور وزارت کے اعلٰی حکام اگلے دو ہفتوں میں اس کا آخری جائزہ مکمل کر کے کابینہ کو بھجوا دیں گے۔
جنید امام کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ وفاقی کابینہ ستمبر کے آخری ہفتے تک اس پالیسی کی منظوری دے کر فوری طور پر نافذ العمل کر دے گی۔
جنید امام کے مطابق اے آئی کے میدان میں دوسرے ممالک سے تعاون حاصل کرنے کے لیے قومی پالیسی میں ایک واضح لائحہ عمل دیا گیا ہے اور اس پالیسی کی منظوری کے بعد ایک خصوصی فنڈ بھی تشکیل دیا جائے گا جس کے لیے ابتدائی سرمایہ پاکستان میں سٹارٹ اپس کے فروغ کے لیے تشکیل دیے گئے قومی ادارے ’اگنائٹ‘ (Ignite) سے لیا جائے گا۔
جنید امام نے اردو نیوز کو بتایا کہ پالیسی کو حتمی شکل دینے سے پہلے حکام اور متعلقہ ماہرین نے دنیا بھر میں رائج رحجانات اور قوانین کا جائزہ لیا ہے اور ایسے اقدامات تجویز کیے ہیں جن سے نہ صرف اس میدان میں پاکستان عالمی سطح پر دوسرے ممالک کے ہم پلہ ہو گا بلکہ ان سے وسیع تعاون بھی حاصل کرے گا اور اس کے ذریعے یہاں بھی اے آئی کے میدان میں ترقی ہو گی۔

انڈسٹری کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں وزرا کو اس شعبے کی معلومات نہیں۔ (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)

پالیسی کے مطابق 2050 تک پاکستان کی آبادی 33 کروڑ تک پہنچ جائے گی اور اس وقت پاکستان کی کل آبادی کے 64 فیصد افراد 30 سال سے کم عمر کے ہیں جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی ایک بڑی افرادی قوت کو قابل روزگار بنا کر ترقی کے رستے پر رواں کیا جا سکتا ہے اور اس میں اے آئی اہم کردار ادا کرے گی۔   

10 لاکھ نوجوانوں کی تربیت کا ہدف

 پاکستان نے اے آئی پالیسی میں ذاتی ڈیٹا کے شفاف اور جائز استعمال اور انڈسٹری اور تعلیمی اداروں کے اشتراک پر بھی خصوصی زور دیا  ہے۔
پالیسی میں دو سال کے اندر انٹرنیٹ کو پاکستان کے 90 فیصد افراد تک پہنچانے، اے آئی اہداف کے حصول کو آسان بنانے، منسلک ٹیکنالوجی کے اشتراک، ریسرچ سینٹرز کے قیام، 10 لاکھ نوجوانوں کو تربیت کی فراہمی، گورننس میں بہتری، زندگیاں بہتر بنانے اور معاشی وسائل کی پیداوار، سرکاری خدمات کی بہتری، اے آئی معیشت کے فروغ اور اس میں ورک فورس کی شمولیت اور صنعتوں میں اے آئی ٹیکنالوجی کے موثر استعمال کے فروغ کی سفارش کی گئی ہے۔
اے آئی پالیسی کے تحت ہائر ایجوکیشن کمیشن کے کُل وظائف کا 30 فیصد مصنوعی ذہانت کے شعبے کے لیے مختص کیا جائے گا، آئی ٹی کے شعبے میں موجودہ 70 فیصد ملازمین جبکہ نئے بھرتی ہونے والے 100 فیصد کو مصنوعی ذہانت کی تربیت اور گریڈ 12 سے گریڈ 22 کے سرکاری ملازمین، افسران اور ٹیکنوکریٹس کے لیے مصنوعی ذہانت کی آگاہی ورکشاپس منعقد کروائی جائیں گی۔  
مصنوعی ذہانت کو پرائمری، سیکنڈری اور اعلٰی تعلیم کا حصہ بنایا جائے گا۔ پالیسی کے مطابق مصنوعی ذہانت میں تحقیق کرنے والے طلبہ کو فنڈنگ سپورٹ، اشاعتی فیس اور سفری گرانٹس دی جائیں گی۔ ایک ہزار ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ منصوبوں کو مالی مدد فراہم کی جائے گی۔ اس حوالے سے اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں مصنوعی ذہانت سینٹرز بنائے جائیں گے اور تمام ڈیٹا بیس کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔

توقع ہے کہ پاکستان کی وفاقی کابینہ ستمبر کے آخری ہفتے تک اے آئی پالیسی کی منظوری دے گی۔ (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)

مصنوعی ذہانت کے ذریعے تعلیم، صحت، زراعت اور سرکاری اداروں میں اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی تاکہ عوام کے لیے خدمات کی فراہمی میں آسانیاں پیدا کی جا سکیں۔
مصنوعی ذہانت پالیسی کے سٹریٹیجک مقاصد طے کیے گئے ہیں جن کو مزید دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے اخلاقی اور ترقیاتی مقاصد کے طور پر تجویز کیا گیا ہے، جبکہ اگلے پانچ برس کے لیے 15 اہداف طے کیے گئے ہیں جن میں بیشتر اگلے دو سال میں حاصل کیے جائیں گے۔

’پاکستان آئی ٹی سروسز پر ٹیکس لگاتا ہے، انڈیا مراعات دیتا ہے‘

تاہم پاکستان میں اے آئی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے منسلک ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت کے دعوؤں اور عمل میں تضاد ہے۔
وحید محمد ایریڈین ٹیکنالوجیز کے پارٹنر ہیں اور اے آئی میں ہونے والی ترقی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جب تک پاکستان کی حکومت اے آئی کے غیرملکی سرمایہ کاروں اور آئی ٹی کی بڑی کمپنیوں کو پاکستان لانے کے لیے سرکاری سطح پر سپانسرشپ فراہم نہیں کرتی تب تک کسی حکمت عملی اور اعلان کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ نہ صرف پاکستان آئی ٹی مصنوعات اور بین الااقوامی کمپنیوں کی سروسز پر غیرضروری ٹیکس عائد کر رہا ہے اور ابھی تک آئی ٹی کا کوئی بڑا ایونٹ پاکستان میں منعقد کروانے میں ناکام رہا ہے بلکہ حکومت کی طرف سے نوجوانوں کو دی جانے والی آئی ٹی تربیت بھی انتہائی ناقص ہے۔
’سابقہ حکومت میں صدر عارف علوی کی طرف سے صدارتی انیشی ایٹو برائے اے آئی اینڈ کمپیوٹنگ شروع کیا گیا تھا۔ اس پروگرام سے ایک گریجوایٹ بھی مارکیٹ میں نہیں آیا۔ اسی طرح جو کورسز سرکاری ادارے نیوٹیک میں کروائے جاتے ہیں ان کا بھی عملی کام میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘
وحید محمد کا کہنا ہے کہ پاکستان آئی ٹی پر درآمد کی مد میں 25 فیصد ٹیکس وصول کرتا ہے جبکہ اس کے برعکس انڈیا وہاں آئی ٹی سرور لگانے پر 25 فیصد رعایت دیتا ہے۔ اسی طرح انڈیا آئی ٹی سرمایہ کاروں کے دوروں کا خرچ سرکاری طور پر برداشت کرتا ہے جب کہ پاکستان ایسا نہیں کرتا۔
وحید محمد نے بتایا کہ انڈیا کے انہی اقدامات کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر کی آئی ٹی کمپنیاں بشمول چین کے وہاں کلاوڈ ڈیٹا سینٹر بنا رہی ہیں۔

’پاکستان میں ضوابط نہیں بنتے انڈسٹری کو دبایا جاتا ہے‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی بھی انڈسٹری کو ریگولائز کرنے کی بجائے اس کو دبایا جاتا ہے۔
’پاکستان میں ابھی تک کرپٹو کرنسی کے ضوابط نہیں بن سکے۔ ہمارا صرف ایک نوجوان حیدرآباد میں بیٹھ کر ایک چھوٹے سے کرپٹو سٹوڈیو کے ذریعے سالانہ ایک ارب ڈالر کما رہا ہے لیکن اس کو خدشہ ہے کہ ضوابط نہ ہونے کی وجہ سے اس کا کاروبار کسی بھی وقت بند کیا جا سکتا ہے۔‘

غیرملکی ٹرینرز کے مطابق پاکستان میں اے آئی کی تعلیم کا مستقبل زیادہ روشن نہیں۔ (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)

غیر پیشہ ور حکومتی عہدیدار

وحید محمد کے مطابق پاکستان میں غیر پیشہ ور وزرا  کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کو اس شعبے کا علم نہیں ہوتا جس کے وہ وزیر ہوتے ہیں اور اس لیے وہ عملی کام میں دلچسپی نہیں لیتے۔
’یہ بات پاکستان کی تمام انٹرنیٹ کمیونٹی کے لیے عالمی سطح پر باعث شرم تھی جب پاکستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی موجودہ وزیر شزا فاطمہ نے کہا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی سست رفتار کی وجہ وی پی این کا استعمال ہے۔‘
’ہمارے حکمران عالمی کانفرنسز اور ایونٹس میں بھی صرف تصویریں بنواتے ہیں اور کسی عالمی کمپنی سے کوئی باضابطہ یا ثمر آور گفتگو نہیں کرتے۔‘

سیاسی عدم استحکام بھی اے آئی پالیسی میں تاخیر کی وجہ

پاکستان کی اے آئی پالیسی کو حتمی شکل دینے کا کام گذشتہ سال جنوری میں شروع ہوا تھا جس کے بعد یہ مسلسل تعطل کا شکار رہی ہے۔
ابتدائی طور پر ہدف مقرر کیا گیا تھا کہ دسمبر 2023 تک یہ پالیسی منظور کر کے نافذ کر دی جائے گی تاہم گزشتہ سال نومبر میں حکام نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ مختلف سرکاری اداروں کی طرف سے معلومات کے تبادلے میں سُستی اور ڈیٹا شیئرنگ کا ایک قومی میکانزم نہ ہونے کی وجہ سے اس پالیسی میں تاخیر ہو رہی ہے۔
حکام کے مطابق پاکستان میں سیاسی تبدیلیوں اور انتخابات کے انعقاد کی وجہ سے بھی اے آئی پالیسی کی تیاری میں تاخیر ہوئی۔

شیئر: