Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیوزی لینڈ نے بڑے تجارتی پارٹنر چین کو ’پیچیدہ انٹیلی جنس مسئلہ‘ قرار دے دیا

بیجنگ پر الزام لگایا گیا کہ وہ فرنٹ آرگنائزیشنز کو مقامی گروپوں سے منسلک کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
نیوزی لینڈ کی خفیہ ایجنسی نے چین کو ایک ’پیچیدہ انٹیلی جنس مسئلہ‘ قرار دیا اور خبردار کیا ہے کہ نیوزی لینڈ غیرملکی مداخلت کا شکار ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایک سالانہ رپورٹ میں نیوزی لینڈ سکیورٹی انٹیلی جنس سروس نے کہا کہ کئی ممالک نیوزی لینڈ میں ’بد نیتی پر مبنی سرگرمی‘ کر رہے ہیں، لیکن چین کی کوششوں کو ’پیچیدہ اور فریب‘ قرار دیا۔
خاص طور پر بیجنگ پر الزام لگایا گیا کہ وہ فرنٹ آرگنائزیشنز کو مقامی گروپوں سے منسلک کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ 
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’یہ فرنٹ آرگنائزیشنز اکثر کمیونٹی پر مبنی نظر آئیں گی، لیکن ان کی حقیقی وابستگی، سمت اور فنڈنگ ​​کے ذرائع پوشیدہ ہیں۔‘
غیر معمولی طور پر دو ٹوک زبان کا استعمال اس وقت سامنے آیا ہے جب نیوزی لینڈ کی حال ہی میں منتخب حکومت ملک کی خارجہ پالیسی کو روایتی مغربی اتحادیوں کی طرف زیادہ جھکا رہی ہے۔
مارچ میں نیوزی لینڈ نے عوامی سطح پر کہا تھا کہ 2021 کے ایک سائبر حملے کے پیچھے ایک چینی ریاستی سرپرستی والا گروپ ہے جس نے حساس سرکاری کمپیوٹر سسٹم میں دراندازی کی۔
چین نے ہیکنگ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کے ناقدین پر واشنگٹن کی کٹھ پتلی ہونے کا الزام لگایا۔
نیوزی لینڈ کی جاسوسی ایجنسی نے کہا کہ بحرالکاہل کے علاقے میں ملک کی جغرافیائی حیثیت اور کردار نے اسے زیادہ اثر و رسوخ کے لیے کوشاں دوسرے ممالک کے لیے ’خطرناک‘ بنا دیا ہے۔
اس میں روس بھی شامل ہے جو ممکنہ طور پر لوگوں کے عوامی بیانات اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نگرانی کرتا ہے۔
ایک اور معاملے میں ایک نامعلوم ملک نے نیوزی لینڈ کی ایک مقامی کونسل سے رابطہ کیا اور کہا کہ اگر وہ کسی مخصوص مذہبی گروہ کو محدود کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں تو وہ کمیونٹی ایونٹ کے لیے ادائیگی کریں گے۔

نیوزی لینڈ نے کہا کہ ایک چینی ریاستی سرپرستی والے گروپ نے حساس سرکاری کمپیوٹر سسٹم میں دراندازی کی (فوٹو: پکسابے)jj

سکیورٹی کے ڈائریکٹر جنرل اینڈریو ہیمپٹن نے کہا کہ رپورٹ کا مقصد ملک کو درپیش خطرات کو سامنے رکھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مقصد کسی کو خطرے میں ڈالنے کا نہیں ہے بلکہ نیوزی لینڈ کے باشندوں کو خطرات سے آگاہ کرنا ہے تاکہ ہم ان کو سنبھالنے کے لیے مل کر کام کر سکیں۔‘
رواں برس کے آغاز میں نیوزی لینڈ کے وزیراعظم کرسٹوفر لکسن نے کہا تھا کہ ملک اب اپنے جغرافیہ کے باعث تنہائی پر انحصار نہیں کر سکتا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگرچہ چین ’بلا شبہ اثر و رسوخ کا حامل ملک‘ ہے، لیکن مختلف اقدار کا مطلب ہے کہ وہاں ایسے مسائل ہیں جن پر ہم متفق نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ہوں گے۔‘
تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چین نیوزی لینڈ کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے جو ڈیری، گوشت اور لکڑی کی مصنوعات برآمد کرتا ہے جو 13.2 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔

شیئر: