Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہر کوئی بھوکا رہے گا‘، چین میں ٹیکسی ڈرائیور روبوٹیکسی سے پریشان

چین کی سڑکوں پر اب ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیوں کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے ٹیکسی ڈرائیورز کو خدشہ ہے کہ ان کا روزگار چھن جائے گا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق چین کے شہر ووہان کے رہائشی لیو یی بنیادی طور پر تعمیراتی شعبے سے منسلک ہیں لیکن وہ پارٹ ٹائم ٹیکسی چلاتے ہیں۔
ملک میں اپارٹمنٹس کی زیادہ فروخت نہ ہونے کی وجہ سے اُنہیں اس کام میں زیادہ منافع نہیں ہو رہا اس لیے وہ پارٹ ٹائم گاڑی ٹیکسی چلا کر گزر بسر کرتے ہیں۔
لیو یی نے جب اپنے ہمسایوں کو بغیر ڈرائیور چلنے والی ٹیکسیاں بُک کرتے دیکھا تو انہوں نے ملک میں ایک نئے بحران کی پیش گوئی کی۔
انہیں خدشہ ہے کہ چین کی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ماہر کمپنی بیدو کی خودکار گاڑیوں روبوٹیکس کی وجہ سے کئی ٹیکسی ڈرائیورز بےروزگار ہو جائیں گے۔
لیو یی کے بقول ’ہر کوئی بھوکا رہے گا۔‘
وزارت صنعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
ماہرین اقتصادیات اور صنعت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکسی ڈرائیورز پوری دنیا میں وہ پہلے ملازمین ہیں جو مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ملازمت چھن جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
چین کے کم از کم 19 شہروں میں آزمائشی طور پر روبوٹیکسی اور روبوبس چلائی جا رہی ہے۔
بیدو کی ’اپولو گو‘ نامی گاڑیوں کی سروس کا کہنا ہے وہ سال کے اواخر تک ووہان میں 1000 اور 2030 تک 100 شہروں میں ان گاڑیوں کو چلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
جولائی میں سوشل میڈیا پر بھی روبوٹیکس کی وجہ سے ملازمتیں ختم ہونے کی بحث چھڑی جس میں سوال اُٹھایا گیا کہ ’کیا ڈرائیور کے بغیر گاڑیاں ٹیکسی ڈرائیوروں کی روزی روٹی چھین رہی ہیں؟‘
ووہان شہر میں ٹیکسی چلانے والے 63 سالہ وانگ گوکیانگ ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیوں کو کارکنوں کے لیے ایک ’خطرے‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ٹیکسی چلانا سب سے نچلے طبقے کا کام ہے۔ اگر آپ اس صنعت کو ختم کر دیں گے تو ان کے پاس کرنے کو کیا کام بچے گا؟
بیدو نے ڈرائیوروں کے خدشات پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا اور روئٹرز کو مئی میں اپولو گو کے جنرل منیجر چن ژو کے تبصروں کا حوالہ دیا۔
چن ژو نے کہا تھا کہ یہ فرم ’دنیا کی پہلی تجارتی لحاظ سے منافع بخش‘ خود مختار ڈرائیونگ پلیٹ فارم بن جائے گی۔

شیئر: