’یہ اسمبلی ہماری آواز نہیں سنتی‘، اختر مینگل کا مستعفی ہونے کا اعلان
’یہ اسمبلی ہماری آواز نہیں سنتی‘، اختر مینگل کا مستعفی ہونے کا اعلان
منگل 3 ستمبر 2024 12:18
سردار اختر مینگل نے تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا ساتھ دیا تھا (فائل فوٹو: وائٹ سٹار)
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفے کا اعلان کیا ہے۔
منگل کو قومی اسمبلی کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ اسمبلی ہماری آواز کو نہیں سنتی تو اس اسمبلی میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ شاید ہماری کمزوری ہے کہ ہم بات نہیں سمجھا سکے۔ میں اس ریاست اور تمام اداروں سے مایوس ہوں۔ ہماری زبانوں پر تالے لگا دیے جاتے ہیں، ہم مایوس ہو چکے ہیں۔‘
’آج فیصلہ کیا تھا کہ اسمبلی میں بلوچستان کے مسائل پر بات کروں گا لیکن بلوچستان کے معاملے پر لوگوں کی دلچسپی نہیں ہے۔ پارلیمنٹیرینز نے خود کہا کہ بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔اس مسئلے پر سب کو اکٹھا ہونا چاہیے۔‘
سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’اس مسئلے پر ایک اجلاس بلانا چاہیے تھا جس میں اس مسئلے پر بات ہوتی۔ جب بھی اس مسئلے پر بات شروع کرو تو بلیک آؤٹ کر دیا جاتا ہے۔‘
’میری باتوں سے اگر آپ کو اختلاف ہے تو آپ میری باتیں تحمل سے سنیں۔ اگر پھر بھی میری باتیں غلط لگیں تو مجھے ہر سزا قبول ہے۔‘
سردار اختر مینگل نے تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا ساتھ دیا اور 2024 کے انتخابات میں این اے 261 سے کامیاب ہو کر ایوان میں پہنچے۔
اس سے پہلے سردار اختر مینگل 2018 میں قومی اسمبلی کے رکن تھے اور ابتدا میں ایک معاہدے کے تحت وہ تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بنے لیکن بعد میں الگ ہو گئے۔
1996 میں بی این پی کا قیام عامل میں لایا گیا اور محض ایک سال بعد بی این پی مینگل 1997 کے عام انتخابات میں نو صوبائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
پارٹی سربراہ اختر مینگل جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) کے سربراہ نواب اکبر بگٹی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن تھوڑے ہی عرصے میں پارٹی میں اختلافات پیدا ہو گئے اور اختر مینگل کو بلوچستان میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات کرنے سے متعلق پارٹی سے مشاورت نہ کرنے کے الزامات کے باعث استعفیٰ دینا پڑا۔
جس کے بعد نواب اسراراللہ زہری نے بی این پی کے مقابلے میں بی این پی عوامی بنا لی اور یوں اختر مینگل کی جماعت بی این پی مینگل کہلانے لگی۔
بی این پی مینگل نے 2002 اور 2008 کے عام انتخابات ’فوجی ڈکٹیٹر‘ پرویز مشرف کی سربراہی میں کرانے کی وجہ سے ان میں حصہ نہیں لیا۔
اس کے باوجود ان کی پارٹی کے تین رہنما قومی و صوبائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور پارٹی کا ایک سینیٹر بھی منتخب ہوا جنہوں نے 2006 میں اپنی نشستوں سے اس وقت استعفیٰ دے دیا، جب بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا۔
2006 میں اختر مینگل کے ذاتی سیکیورٹی گارڈ نے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر خفیہ ادارے کے اہلکار کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد اختر مینگل کو گرفتار کرلیا گیا۔
پی این پی مینگل نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور کراچی جیل سے رہائی کے بعد اختر مینگل نے چار سال تک خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی اور 2013 میں وطن واپس لوٹ کر سیاست میں متحرک ہوئے۔