Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اختر مینگل کا استعفٰی ریڈ فلیگ، حکومت بلوچستان میں امن کے لیے ایس ایچ او سے آگے سوچے‘

ماہرین اختر مینگل جیسے رہنما کے پارلیمان سے باہر جانے کو تشویش ناک قرار دے رہے ہیں (فوٹو: ویڈیو گریب)
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے یہ کہہ کر  استعفٰی دے دیا ہے کہ ان کی آواز نہیں سنی جاتی۔ اس لیے اب اس اسمبلی میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اختر مینگل اس وقت بلوچستان کے بااثر ترین سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کا پارلیمانی نظام سے علٰحیدہ ہونا نہ صرف ان کی مایوسی کی علامت ہے بلکہ اس سے پاکستان کی مرکزی حکومت کے لیے بلوچستان کے مسائل کا سیاسی حل نکالنے کے لیے موجود رستے بھی محدود ہونے کا خدشہ ہے۔
سردار اختر مینگل نے تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا ساتھ دیا اور وہ 2024 کے انتخابات میں این اے 261 سے کامیاب ہو کر ایوان میں پہنچے۔
ایک ایسے وقت میں جب صوبہ بلوچستان میں سکیورٹی صورتحال خراب ہو رہی ہے اور ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں برس اگست کا مہینہ گذشتہ چھے برسوں میں سب سے زیادہ پرتشدد رہا۔
ماہرین اختر مینگل جیسے رہنما کے پارلیمان سے باہر جانے کو تشویش ناک قرار دے رہے ہیں۔
سینیئر تجزیہ کار اور بین الااقوامی سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی نے اختر مینگل کے استعفے کو بلوچستان کے حوالے سے سرخ جھنڈی سے تعبیر کیا ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو اختر مینگل سے پوچھنا چاہیے کہ وہ استعفی دینے پر کیوں مجبور ہوئے ہیں۔
’اس حکومت کو ایس ایچ او سے آگے کا سوچنا چاہیے اور بلوچستان کے سیاست دانوں کے ساتھ معنی خیز بات چیت کرنی چاہیے۔ انہیں بلوچوں اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں فرق کرنا چاہیے۔‘
‘ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ لوگوں سے جڑ رہی ہیں‘
ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ حکومت بلوچستان کے مسئلے کا حل صوبے کے تمام سیاست دانوں کے ساتھ مشاورت سے کر سکتی ہے اور اس سلسلے میں اختر مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
’حکومت کے پاس بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کی صورت میں بہت واضح آپشن موجود ہے۔ انہوں نے خود کو تشدد سے الگ رکھا ہوا ہے اور وہ پرامن ہیں۔‘
’اگر ہم نے آنکھیں نہیں موندی ہوئیں تو نظر آ رہا ہے کہ ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ لوگوں سے جڑ رہی ہیں اور ان کو خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے۔‘
ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ حکومت نے ایک موقع اس وقت کھو دیا جب ماہرنگ بلوچ خود چل کر ان کے پاس اسلام آباد آئی تھیں لیکن اب یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے اور ان سمیت تمام بلوچ سیاست دانوں سے اس مسئلے کے حل کے لیے رابطہ کرنا چاہیے۔
’بلوچستان میں سیاسی انجینئرنگ کی وجہ سے کرپشن اور سکیورٹی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف اب جو مزاحمت ہو رہی ہے وہ شہری علاقوں کی ہے اور نوجوانوں اور پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے۔ حکومت کو اس کا ادراک کر کے ان مسائل کا ازالہ کرنا چاہیے۔‘
’عسکریت بڑھ سکتی ہے‘
بلوچستان کے سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ حکومت کو فوری طور پر محمود خان اچکزئی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور اختر مینگل سے مشاورت کا عمل شروع کرنا چاہیے۔
’اگر یہ تین سیاسی رہنما بلوچستان کے مسئلے پر مشاورت میں شامل نہیں ہیں تو معاملہ خراب ہے۔ اختر مینگل کے پارلیمانی نظام سے باہر آنے سے عسکریت بڑھ سکتی ہے، لہٰذا حکومت کو ان سے فوری بات چیت کرنی چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر آگے جا کر اختر مینگل ’ری ایکشنری‘ ہو جائیں یا صرف یہ کہہ دیں کہ وہ اپنے کارکنوں کو اپنی جدوجہد کا من چاہا رستہ منتخب کرنے کے لیے آزاد چھوڑتے ہیں تو حالات مزید خراب ہوں گے۔‘
اختر جان مینگل کا پارلیمانی سیاست کا سفر
 سردار اختر مینگل 2018 میں بھی قومی اسمبلی کے رکن تھے اور ابتدا میں ایک معاہدے کے تحت وہ تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بنے لیکن بعد میں الگ ہو گئے۔
ان کی جماعت بی این پی کا قیام 1996 میں عمل میں لایا گیا اور محض ایک سال بعد بی بی این پی مینگل 1997 کے عام انتخابات میں نو صوبائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ جس کے بعد اختر مینگل جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) کے سربراہ نواب اکبر بگٹی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے۔
بی این پی مینگل نے 2002 اور 2008 کے عام انتخابات ’فوجی ڈکٹیٹر‘ پرویز مشرف کی سربراہی میں کرانے کی وجہ سے ان میں حصہ نہیں لیا۔
اس کے باوجود ان کی پارٹی کے تین رہنما قومی و صوبائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور پارٹی کا ایک سینیٹر بھی منتخب ہوا جنہوں نے 2006 میں اپنی نشستوں سے اس وقت استعفیٰ دے دیا، جب بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا۔
2006 میں اختر مینگل کے ذاتی سکیورٹی گارڈ نے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر خفیہ ادارے کے اہلکار کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد اختر مینگل کو گرفتار کر لیا گیا۔
پی این پی مینگل نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور کراچی جیل سے رہائی کے بعد اختر مینگل نے چار سال تک خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی اور 2013 میں وطن واپس لوٹ کر سیاست میں متحرک ہوئے۔

شیئر: