بلوچستان میں گذشتہ چھ برسوں میں رواں سال کا اگست سب سے زیادہ پرتشدد رہا: رپورٹ
بلوچستان میں گذشتہ چھ برسوں میں رواں سال کا اگست سب سے زیادہ پرتشدد رہا: رپورٹ
پیر 2 ستمبر 2024 15:42
رپورٹ کے مطابق زیادہ تر ہلاکتیں ملک میں عسکریت پسندوں کے 83 حملوں کے نتیجے میں ہوئیں (فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد میں موجود ایک تھنک ٹینک نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں اگست میں ریاست مخالف تشدد میں ’خطرناک اضافہ‘ دیکھنے میں آیا۔ یہ مہینہ گذشتہ چھ سالوں میں سب سے زیادہ پرتشدد رہا جس میں بلوچستان میں سب سے زیادہ ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔
پیر کو انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق اگست میں پاکستان بھر میں 92 عام شہری، 54 سکیورٹی اہلکار اور 108 عسکریت پسندوں سمیت کم از کم 254 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ تشدد کے واقعات میں 88 عام شہریوں، 35 سکیورٹی اہلکاروں اور 27 عسکریت پسندوں سمیت مزید 150 افراد زخمی ہوئے۔
ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں ملک میں عسکریت پسندوں کے 83 حملوں کے نتیجے میں ہوئیں، جن میں 92 عام شہری، 47 سکیورٹی اہلکار اور 36 عسکریت پسندوں سمیت 175 افراد ہلاک اور 88 عام شہریوں اور 35 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 123 افراد زخمی ہوئے، اگست کو جولائی 2018 کے بعد سب سے مہلک مہینہ قرار دیا گیا۔
اس ماہ کے دوران سکیورٹی آپریشنز کے نتیجے میں 79 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 72 عسکریت پسند اور سات سکیورٹی اہلکار شامل تھے، جبکہ 27 عسکریت پسند زخمی ہوئے۔ سکیورٹی فورسز نے 12 مشتبہ عسکریت پسندوں کو بھی گرفتار کیا، جبکہ عسکریت پسندوں نے کم از کم نو افراد کو اغوا کر لیا، جن میں ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل اور ایک اسسٹنٹ کمشنر بھی شامل ہیں۔
پی آئی سی ایس ایس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’بلوچستان میں تشدد میں سب سے نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ صوبے میں عسکریت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے 125 اموات ریکارڈ کی گئیں، جن میں 80 عام شہری، 22 سکیورٹی اہلکار اور 23 عسکریت پسند شامل تھے۔‘
یہ رپورٹ عسکریت پسندوں کی جانب سے 25 اگست کو بلوچستان کے متعدد اضلاع میں مربوط حملوں کے ایک ہفتے بعد سامنے آئی ہے، جس میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، جو صوبے میں سرگرم عسکریت پسند گروپوں میں سب سے نمایاں ہے، نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان، جس کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں اور وہاں چین کے زیرقیادت بڑے منصوبوں جیسے کہ ایک سٹریٹجک بندرگاہ اور سونے اور تانبے کی کان ہے، نسلی بلوچ عسکریت پسندوں کی دہائیوں سے جاری علیحدگی پسند شورش کا مقام رہا ہے۔
علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ مرکز میں وفاق کی جانب سے صوبے کی معدنی اور گیس کی دولتکے منصوبوں کو غیر منصفانہ استحصال کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ریاست ان الزامات کی تردید کرتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ مختلف ترقیاتی سکیموں کے ذریعے غریب صوبے کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’بلوچستان میں اگست میں 49 پرتشدد واقعات ہوئے، جو جولائی میں صرف 13 تھے۔‘
اس کے برعکس خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوئی جہاں پرتشدد واقعات میں 25 فیصد کمی آئی اور شہریوں کی ہلاکتوں میں 43 فیصد کمی آئی۔ تاہم عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں میں 98 فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق جولائی میں 20 کے مقابلے میں اگست میں 65 عسکریت پسند مارے گئے۔ تاہم سکیورٹی فورسز کے نقصانات میں بھی 54 فیصد اضافہ ہوا۔ جولائی 2024 میں 13 کے مقابلے میں اگست میں 20 اہلکار مارے گئے۔
خیبر پختونخوا میں اگست میں 24 پرتشدد واقعات رپورٹ ہوئے، جو کہ جولائی میں 42 تھے۔ سندھ میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی۔ جولائی میں نو کے مقابلے میں اگست میں صرف دو پرتشدد واقعات رپورٹ ہوئے، جبکہ پنجاب میں صرف ایک پرتشدد واقعہ پیش آیا، جس میں دو عسکریت پسند مارے گئے، اور دو سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔
پی آئی سی ایس ایس کے مطابق عسکریت پسندوں نے گذشتہ آٹھ ماہ میں پاکستان میں 640 حملے کیے، جن کے نتیجے میں 757 افراد ہلاک اور 733 زخمی ہوئے۔ یہ 2023 کے اسی عرصے کے مقابلے میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 51 فیصد اضافہ اور ہلاکتوں میں 21 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتا ہے، جبکہ زخمیوں کی تعداد میں 24 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔