Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

190 ملین پاؤنڈ ریفرنس: سماعت 7 ستمبر تک ملتوی، محفوظ فیصلہ ریفرنس کے فیصلے کے ساتھ سنایا جائے گا

گذشتہ روز ریفرنس سے بریت کی درخواست پر دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
احتساب عدالت نے کہا ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں بشریٰ بی بی کی بریت کی درخواست پر محفوظ فیصلہ ریفرنس کے فیصلے کے ساتھ سنایا جائے گا۔
عدالت نے کیس کی سماعت سات ستمبر تک ملتوی کر دی ہے۔
جمعرات کو اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس پر احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے سماعت کی۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور بشریٰ بی بی کو کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا۔
190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں وکلا نے ریفرنس کے تفتیشی میاں عمر ندیم پر جرح کی۔
گذشتہ روز احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس سماعت اڈیالہ جیل میں کی اور سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو عدالت میں پیش کیا گیا۔
بشریٰ بی بی کے وکیل عثمان گل نے درخواست بریت پر دلائل دیے۔ نیب کے پراسیکیٹور جنرل سردار مظفر عباسی اور امجد پرویز نے بریت درخواست کی مخالفت میں دلائل دیے۔
 احتساب عدالت میں بشریٰ بی بی کی ریفرنس سے بریت کی درخواست پر دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کیا ہے؟ 
اس معاملے کی ابتدا پاکستان کے معروف پراپرٹی ٹائیکون اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض حسین کے خاندان پر برطانیہ میں دائر ہونے والے ایک مقدمے سے ہوئی۔ 
عمران خان کے دورِ حکومت میں بحریہ ٹاؤن کی رقم برطانیہ میں ضبط کی گئی جس کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان خفیہ طور پر تصفیہ ہو گیا تھا۔ 
ان کے بعد نئی بننے والی اتحادی حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ ’بحریہ ٹاؤن نے 50 ارب روپے غیرقانونی طور پر برطانیہ منتقل کیے جنہیں وہاں منجمد کر لیا گیا تھا۔ عمران خان کی حکومت کی جانب سے یہ رقم واپس لانے کے بجائے برطانیہ میں بحریہ ٹاؤن کو ریلیف دیا گیا۔‘ 

حکومت نے الزام عائد کیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کی ضبط کی گئی رقم پر ریلیف دیتے ہوئے بدلے میں بحریہ ٹاؤن سے اراضی حاصل کی گئی (فوٹو: اے ایف پی)

حکومت کا دعویٰ تھا کہ ’بحریہ ٹاؤن کے جو پیسے برطانیہ میں پکڑے گئے وہ سپریم کورٹ کی فیصلے کے بعد واجب الادا رقم میں ایڈجسٹ کر دیے گئے تھے۔‘ 
جون 2022 میں پاکستان کی اتحادی حکومت نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔
اس وقت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اس خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئی تھیں۔ 
ان دستاویزات میں اُس وقت کے وزیراعظم کے معاون خصوصی  برائے احتساب اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر کا وزیراعظم کو لکھا گیا نوٹ بھی شامل تھا جس کے تحت وزیراعظم عمران خان نے نیشنل کرائم ایجنسی، بحریہ ٹاؤن اور ایسیٹ ریکوری یونٹ کے درمیان خفیہ معاہدے کی منظوری دی۔ 
حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کی ضبط کی گئی رقم پر ریلیف دیتے ہوئے بدلے میں بحریہ ٹاؤن سے اراضی حاصل کی گئی۔ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی دستاویزات بھی منظر عام پر لائی گئیں۔   
 

شیئر: