پیپلز پارٹی پنجاب میں مسلم لیگ ن کے لیے ایم کیو ایم بنتی جا رہی ہے؟
پیپلز پارٹی پنجاب میں مسلم لیگ ن کے لیے ایم کیو ایم بنتی جا رہی ہے؟
بدھ 4 ستمبر 2024 5:33
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
مبصرین کا کہنا ہے کہ ’پارلیمنٹ کے اندر کمزور حکومتوں کو بلیک میلنگ کا ہمیشہ سامنا رہتا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور اسے پیپلز پارٹی کی ’غیر مشروط‘ حمایت بھی حاصل ہے۔
وزیراعلٰی مریم نواز کی جانب سے منصب سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہلکے سُروں میں یہ راگ الاپا ہے کہ صوبے میں اُن کے کام نہیں ہو رہے۔‘
اس سے پہلے کہ یہ راگ کسی الاپ میں تبدیل ہوتا مسلم لیگ ن کی دعوت پر گذشتہ ماہ گورنر ہاؤس پنجاب میں ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ اِن ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
پیر کو اسی سلسلے کا دوسرا اجلاس پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب کی سرکاری رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ اس طویل اجلاس میں پیپلز پارٹی کے وہ تمام مطالبات مان لیے گئے جو انہوں نے سامنے رکھے تھے۔
اس میٹنگ کے بعد ایک ’تعریفی‘ پریس ریلیز بھی جاری کی گئی جس میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے مریم نواز کی حکومت کی کارکردگی کو سراہا اور اپنی بھرپور حمایت کا اعادہ بھی کیا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ہُوبہُو ویسی تو نہیں لیکن پنجاب میں پیپلز پارٹی کی موجودہ صورت حال حالیہ سیاسی تاریخ میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی حکمتِ عملی سے مِلتی جُلتی ہے۔
’موجودہ صورت حال ایم کیو ایم کی حکومتِ وقت سے اپنی باتیں منوانے کے لیے ’منہ بسورنے‘ سے لے کر حمایت ختم کرنے تک کی دھمکیوں جیسی مشابہت ضرور رکھتی ہے، لیکن ’سیانی‘ ن لیگ بات منہ بسورنے سے آگے جانے کا موقع ہی نہیں دیتی۔ پیپلز پارٹی کے مطالبات تھے کیا؟
دونوں اتحادی جماعتوں کی اس میٹنگ میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر علی حیدر گیلانی بھی شریک تھے۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارے مسائل بڑے سنجیدہ تھے۔‘
’جب پیپلز پارٹی نے وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومتوں کی حمایت کا اعلان کیا تھا تو اس وقت دونوں جماعتوں کے درمیان پنجاب کی حد تک ایک تحریری معاہدہ بھی ہوا تھا۔‘
’اسی معاہدے کی رُو سے ہر 15 روز بعد ہمارا مشترکہ اجلاس ہونا طے پایا تھا جو کہ کل تک ہوا ہی نہیں تھا۔ جب ہم نے اس بارے میں قیادت کو بتایا تو اس کے بعد ہمیں میٹنگ کی کال آگئی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پیر کے روز ہم نے کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں اپنے مسائل سے انہیں آگاہ کیا۔ اس پر ہمیں یقین دہانی کروائی گئی کہ ہمارے تمام مسائل حل کیے جائیں گے۔‘
جب علی حیدر گیلانی سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ کا سب سے بڑا مطالبہ کیا تھا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ہمارے پنجاب کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور ضلعی سطح پر عمائدین کو فنڈز کی فراہمی ہے تاکہ وہ اپنے حلقوں میں کام کروا سکیں۔‘
پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کہا گیا ہے کہ ستمبر کے آخر تک فنڈز جاری کر دیے جائیں گے۔ ہم عمائدین کی فہرست بھی انہیں فراہم کر دیں گے۔‘
’ہمارا دوسرا مطالبہ وفاق اور پنجاب میں معاہدے کے مطابق لا افسران کی تعیناتی تھی، طے یہ پایا تھا کہ اسمبلیوں میں ہماری سیٹوں کے تناسب سے ہمارے وکلا کو ملازمتیں دی جائیں گی۔‘
علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ ’اس پر بھی اب ہم مطمئن ہیں، جبکہ تیسرا بڑا مطالبہ ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اداروں میں ہماری مرضی کے مطابق تقرریاں کرنا ہے، جیسا کہ ملتان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی ہے۔‘
’اس پر وہ ہمیں فہرست دیں گے کہ وہ کہاں کہاں ہمیں ایڈجسٹ کر سکتے ہیں، اس لحاظ سے ہم انہیں اپنے ناموں کی لِسٹ مہیا کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن سے صوبے میں قانون سازی پر بھی اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا جو بظاہر مان لیا گیا ہے۔‘
علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اُن پر زور دیا ہے کہ قانون سازی کے معاملے پر ہمیں اعتماد میں لیں اور اس کمیٹی کی میٹنگ ہر 15 دن بعد رکھی جائے تاکہ کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔‘
کمیٹی میں مسلم لیگ ن کی طرف سے مریم اورنگزیب اور سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان جبکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے ندیم افضل چن، علی حیدر گیلانی، راجا پرویز اشرف اور حسن مرتضیٰ شامل تھے۔
اس صورت حال پر بات کرتے ہوئے تجزیہ کار وجاہت مسعود کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جس بندوبست کے ذریعے اکٹھے کام کر رہے ہیں اس میں سے کسی ایک کا نکلنا بھی محال ہے۔‘
’اس طرح کے نظام میں ہر سیاسی پارٹی اپنے مفادات کو بھی مقدم رکھتی ہے چاہے وہ ایم کیو ایم ہو یا پھر پیپلز پارٹی یا کوئی اور جماعت۔ یہ ایک سادہ سی جمع تفریق ہے کہ سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے تمام توانائی صرف کی جائے۔‘
ان کے مطابق ’پیپلز پارٹی کا مفاد پنجاب میں اپنی جگہ دوبارہ بنانا ہے اور اس کے لیے یقینی طور پر اُن کے نامزد کیے گئے نمائندوں کے ذریعے فنڈز کے استعمال سے انہیں فائدہ ہونے کی توقع ہے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمنٹ کے اندر کمزور حکومتوں کو بلیک میلنگ کا ہمیشہ سامنا رہتا ہے۔ چاہے کوئی بھی ملک ہو۔ اقتدار کے ساتھ ساتھ ایسی آمیزشیں بھی ہوتی ہیں۔‘
اس حوالے سے مسلم لیگ ن کی قیادت سے جب رابطہ کیا گیا تو اس موضوع پر بات کرنے کے لیے عظمہ بخاری دستیاب تھیں اور نہ ہی مریم اورنگزیب۔