Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تل ابیب اور انقرہ کے درمیان ’ٹماٹر ڈپلومیسی‘

غزہ میں جاری جنگ کے آغاز میں اسرائیلی حکام ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان پر سخت ناراض ہوئے کیونکہ انہوں نے غزہ پر اسرائیل کی جنگ کو نازی جرائم سے تشبیہ دی تھی اور اسرائیل کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔
الشرق الاوسط میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق بائیکاٹ کے اس اعلان پر اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کیٹس نے بھی ترکیہ کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا اور وزیر خزانہ بتسالل سموتریچ نےترکیہ سے درآمد کیے جانے والے تجارتی سامان پر سو فیصد ٹیکس  بڑھا دیا جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان تمام براہ راست  پروازیں منسوخ کردی گئیں جو اس سے قبل زوروں پر تھیں اور سیاحت کے عروج کے وقت ایک دن میں 40 پروازوں تک پہنچ گئیں ۔ 
اس کشیدگی سے پہلے دونوں حکومتوں نے 2022 میں تجارتی تبادلے کا ہدف 9 بلین ڈالر  رکھا تھا جسے 2023 میں بڑھا کر 10 بلین ڈالر کردیا جائے گا مگر تلخی کے بعد یہ شرح 7.5 بلین ڈالر ہوگئی جس میں 5.3 بلین ترکیہ کی اسرائیل کے لیے برآمدات ہیں جبکہ بقیہ رقم اسرائیل سے ترکیہ کے لیے برآمدات ہیں۔
چونکہ ترکیہ سے اسرائیل آنے والے سامان میں سے 22 فیصد تعمیراتی جبکہ 9 فیصد زرعی سامان ہے اس لیے اسرائیل میں تعمیراتی شعبہ شدید متاثر ہوا جبکہ زرعی شعبے کو بعد ازاں مشکلات کا سامنا تھا اور وہ اس لیے کیونکہ اسرائیلی مارکیٹ کا کچھ انحصار غزہ سے آنے والی پیدوار سے بھی تھا۔
کشیدگی کے ساتھ ہی اسرائیل میں بحران شروع ہو گیا اور سبزی اور پھلوں کی قیمت میں دسیوں فیصد اضافہ ہو گیا جس کے باعث مہنگائی عام ہو گئی اور جنگ کی وجہ سے دیگر اسباب کو ملا کر اسرائیلی معیشت کو سخت نقصانات ہوئے۔
رواں ہفتے کے شروع میں اسرائیلی وزیر خزانہ نے وہی بات کہی جو اس سے قبل اسرائیل کے مرکزی بینک کے سربراہ کی تھی کہ غزہ پر جنگ کی لاگت 2025 تک 67 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی ۔
اس کے ساتھ انہوں نے خبردار کیا کہ  جنگ کے اخراجات اور سیکیورٹی کے لیےفوج کو کھلا چیک نہیں دیا جاسکتا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہم اسرائیلی ریاست کی تاریخ کی سب سے طویل اور مہنگی جنگ کا سامنا کر رہے ہیں جس میں براہ راست دو سو سے 250 بلین  شیکل کے اخراجات ہوں گے‘۔(ڈالر آج کے حساب سے 3.7 شیکل ہے‘۔
ٹماٹروں کی وجہ سے بچت ہو گئی

یہاں ترکیہ کے ٹماٹر کی باری آتی ہے جس نے خصوصی کردار ادا کردیا۔
جنگ سے پہلے اسرائیل، ترکیہ سے 1.2 ٹن  ٹماٹر ہر ہفتے درآمد کرتا تھا اور یہ شہریوں کی ضرورت کا 30 فیصد ہے جو جنگ کے بعد بالکل رک گئی جبکہ ٹماٹر کی بقیہ کھپت ان کھیتوں سے آتی تھی جو غزہ کی حدود میں النقب میں واقع ہیں جن کی پیدوار بھی جنگ کی وجہ سے رک گئی۔
شروع میں اسرائیل نے اردن سے 500 ٹن ٹماٹر درآمد کرنا شروع کیے لیکن یہ مقدار مقامی کھپ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔اس کے ساتھ بحران شروع ہوا اور سبزی اور پھلوں کی قیمت بڑھنے لگی اور شہری پریشان ہونے لگے۔ ایسے میں بحران کا حل ترکیہ سے آگیا۔
متعلقہ حکومتی اداروں کے مابین طویل مباحثوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کے خلاف تمام اسرائیلی الزامات دھواں ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی حکومت نے ترکیہ سے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے لیا۔
اس نمایاں اور اچانک تبدیلی کی وجہ اسرائیلی میڈیا نے تلاش کرنے کی کوشش کی اور حقیقت یہ ہے کہ اسے جواب ملنے میں کسی دقت کا سامنا کرنا نہیں پڑا کیونکہ ترکیہ کے ٹماٹر نے جواب دے دیا۔
پردے کے پیچھے اور شور شرابے سے دور ترکیہ سے ایک ہفتے میں 700 ٹن ٹماٹروں کی کھیپ اسرائیل پہنچ گئی اور اس کے ساتھ اتنی ہی مقدار میں دیگر اجناس کی بھی آمد ہوئی۔
معاملہ آسانی کے ساتھ اس طرح ہے کہ دونوں ملکوں نے بائیکاٹ کے فیصلے  کو حیلے کے ساتھ حل کیا۔ وہ ایسے کہ حکومت کے علم کے ساتھ دونوں ملکوں نے تاجروں کو یہ کام سونپ دیا تاکہ مسئلہ بھی حل ہو اور دونوں ملکوں کی اعلی قیادت کی بات بھی بنی رہے۔
وہ ایسے کہ ترکیہ سے سامان اسرائیل جائے گا مگر اس بنیاد پر کہ اسے فلسطین بھیجا جارہا ہے، سامان کے کاغذات میں مغربی کنارے کے فلسطینی تاجروں کا نام لکھا ہوگا جو اس کام کے عوض بھاری کمیشن لیں گے۔ فلسطینی اتھارٹی تک جو سامان پہنچتا ہے وہ اسرائیل کی بندرگاہوں سے گزرتا ہے، یہاں فلسطینی تاجر سامان وصول کریں گے جو اپنا کمیشن لے کر اسرائیل تاجروں کے حوالے کردیں گے۔
دو تین ہفتوں تک معاملہ اسی طرح چلتا رہا، پھر اس کے بعد فلسطینی تاجروں کو اسرائیلی بندرگاہوں  تک جانے کی ضرورت نہیں رہی، یہ کام اسرائیلی ایجنٹوں نےخود کرنا شروع کردیا اور کمیشن فلسطینی تاجروں کو بھیج دیتے۔
گذشتہ ہفتے اسرائیلی وزارت زراعت کا 26 اگست کو جاری ہونے والا فیصلہ سامنے آیا جس میں بائیکاٹ کے باوجود ترکیہ سے ٹماٹر درآمد کرنے کی اجازت دی گئی لیکن کسی تیسرے ملک کے ذریعے اور اس شرط کے ساتھ کہ کھیپ کا راستہ واضح اور تفصیل کے ساتھ درج ہونا چاہئے۔
بائیکاٹ کا فائدہ

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترکیہ کا یہ حیلہ اور طریقہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے انوکھا اور یکتا ہے یا ایسے دوسرے ممالک بھی ہیں جو اسے اختیار کرتے ہیں۔
وہ بائیکاٹ کا اعلان تو کرتے ہیں مگر حیلے سے متبادل راستے اختیار کرکے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر موشی ڈیوڈ(72 سال) تاریخ، فلسفہ اور افکار کے ڈاکٹر ہیں، اسرائیلی آرمی ریزو میں کرنل ہیں اور انٹیلی جنس میں بنیادی طور پر سروس کرچکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’موجودہ دور میں بائیکاٹ ممکن نہیں رہا‘۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر جنگ نہ ہوتی تو ہماری حالت یقیناً بہتر ہوتی۔ ہمیں اعتراف کرنا پڑے گا کہ جنگجوؤں اور وسائل میں ہمیں کمی کا سامنا ہے، اس کے ساتھ اسلحہ کی پابندی اور عالمی بائیکاٹ بھی ہے مگر یہ سب اس وقت جنگ روکنے کے کافی أسباب نہیں ہیں۔پہلے یہ کہ یہ معاملات اب تبدیل ہوگئے ہیں اور دوسرے یہ کہ اگر امریکہ، اقوام متحدہ کو ریڈ کارڈ دکھانے کی اجازت دے تو بائیکاٹ موثر ہوسکتا ہے لیکن امریکہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دے گا‘۔
صدر نتن یاہو کے قریبی ساتھی بن ڈیوڈ کہتے ہیں کہ ’جنگ کے اخراجات بہت بھاری اور زیادہ ہیں لیکن برداشت سے باہر بھی نہیں‘۔
تل ابیب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ’سینٹرل بینک کے سربراہ کی مئی میں رپورٹ اور وزیر خارجہ کی آج کی رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ 2023 سے 2025 تک جنگ کے براہ راست اخراجات 250 بلین شیکل ہیں جن میں جہازوں کے اخراجات، إذا، فوجیوں کے واجبات ، شمال سے جنوب تک شہریوں کا انخلا  اور زخمیوں کا علاج شامل ہے جبکہ بلا واسطہ اخراجات  بھی ہیں جن کا تعلق سیاحت کے متاثر ہونے ، تاجروں کے نقصانات اور املاک اور مکانات کے معاوضے سے ہے‘۔
’لیکن اسرائیل کے محفوظ ذخائر میں 200 بلین ڈالر بھی ہیں اور جنگ سے معجزاتی طور پر بچنے والے بنیادی سامان کے گودام بھی ہیں‘۔
وہ کہتے ہیں’موجودہ حالات میں ملک کی قومی پیدوار 400 بلین ڈالر ہے اور یہ شرح 7 اکتوبر سے  پہلے کے بہت قریب ہے‘۔
’شہریوں کے کریڈٹ کارڈ سے روزانہ کے اخراجات جو مقامی قومی پیداوار کا 50 فیصد حصہ بھی ہے اور دوسرے مالی معاملات ، ان سب سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام الناس میں قوت خرید موجود ہے جبکہ اس میں 25 فیصد اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
یہی حال حکومتی بانڈز کے سالانہ منافع کا بھی ہے  جو سرمایہ کاروں کی توقعات کے عین مطابق ہے اور جس میں 5 فیصد اضافہ بھی ہوا ہے  اور یہ اضافہ کورونا بحران کے عروج پر تھا لیکن اس میں مزید اضافہ نہیں ہوسکا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’وزارت خزانہ نے اس عرصے کے دوران پیسے کا صحیح استعمال کیا اور اندازہ ہے کہ ملک کے مالیاتی ادارے 100 بلین شیکل کے مزید بانڈز جاری کریں گے جو اسی سال ملک کے قومی خزانے میں جائیں گے۔اس کے علاوہ امریکہ کی طرف سے گزشتہ سال اسرائیل کو خطرات سے بچنے کے لیے 5 سال تک امداد میں 1.5 فیصد اضافی رقم بھی ملے گی‘۔
سموتریچ نے کہا ہے کہ ’تل ابیب کی سٹاک مارکیٹ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 2023 سے پہلی چوتھائی میں 34 بلین نکال لیے تھے، وہ اب واپس آگئے ہیں اور نکالی جانے والی ایک فیصد سے زیادہ نہیں رہی‘۔
’اس کے ساتھ حکومتی جائیداد کی قیمت 5.68 ٹرلین شیکل تک پہنچ چکی ہے اور یہ تاریخ کی سب سے بلند قیمت ہے‘۔
’علاوہ ازیں غیر منقولہ جائیداد کی مارکیٹ میں تیزی آرہی ہے اور اپارٹمنٹس کی قیمت بڑھ رہی ہیں‘۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’یہ بات صحیح ہے کہ قومی بجٹ میں 7 فیصد خسارہ ہے مگر کورونا بحران کے دور میں ہونے والے خسارے سے کم ہے، اس وقت خسارہ 12 فیصد رہا جسے ایک سال کے دوران پورا کرلیا گیا‘۔
’یہ پر امید ماحول ہے اور لیبر مارکیٹ میں بھی تیزی آگئی ہے اور لیبر کی طلب بڑھ گئی ہے جبکہ جنگ کے پہلے تین ماہ میں بہت کم ہوگئی تھی مگر اب جنگ سے پہلے کی طرح ہوگئی ہے۔اس کے ساتھ لیبر کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور اتنی ہی شرح ہوچکی ہے جو جنگ سے پہلے تھی‘۔
’ہائی ٹیک کی صنعت جس سے ملک کے 16 فیصد کارکن اور صنعت وابستہ ہے  وہ 58 فیصد برآمدات کی سطح تک پہنچ گئی ہے جبکہ جنگ کے شروع میں کافی حد تک متاثر ہوئی تھی۔
یہ صنعت ملک کی معیشت کا محور ہے اور اس سے جون کے اختتام تک 3.5 بلین ڈالر کی آمد ہوئی ہے جو گزشتہ دو سالوں کے دوران سب سے زیادہ ہے‘۔
لیکن اسرائیلی رائٹسٹ درحقیقت معیشت میں ہونے والی بڑی کمزور کو چھپا رہے ہیں اور آدھی حقیقت دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ معاملات میں اس طرح ہریالی نہیں ہے جس طرح بتائی جارہی ہے۔
حکومت نے 7.5 بلین شیکل بجٹ حکومتی پارٹیوں کے لیے مختص کردیاہے تاکہ یہ اتحاد برقرار رہے جبکہ بجٹ میں خسارہ انتہائی حد تک پہنچ چکا ہے جس کی مقدار 30 بلین ڈالر ہے۔

اس کا تدارک کرنے کے لیے بجٹ میں کمی اور ٹیکس میں اضافہ کرکے اسے 18 بلین ڈالر کی سطح تک لے جانا ہوگا۔یہ چیز زندگی گزارنے کے انداز اور تنخواہوں میں کمی کی صورت میں شہریوں کو محسوس کی جائے گی۔
اسرائیل سے بائیکاٹ کی عالمی لہر بڑھتی جارہی ہے جبکہ کریڈٹ رینکنگ اداروں نے اسرائیل کی رینک کم کردی ہے۔سیاحت کا شعبہ ماند پڑگیا ہے اور اس میں 81 فیصد کمی دیکھی جارہی ہے۔تعمیرات کا شعبہ مفلوج ہوگیا ہے جبکہ فلسطینی لیبر نے کام چھوڑ دیا ہے ، ان کی تعداد ایک لاکھ 50 ہزار ہے جن میں سے 70 ہزار صرف تعمیرات کے شعبے میں ہیں اور اس کے ساتھ اسرائیلی حکومت دیگر ملکوں سے لیبر لانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔
اس سے قبل یدیعوت احرنوت اخبار نے کہا تھا کہ غزہ کی جنگ نے اسرائیل میں ایسی مشکلات اور چیلینجز پیدا کئے جس کی نظیر نہیں ملتی۔
اس کے ساتھ مقامی معاشرہ بحران کا شکار ہے، فوجی گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں جبکہ دنیا کے ممالک کی طرف سے اسرائیل پر غزہ میں جانی نقصان کم کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور اسرائیلی معیشت ایک بحران سے دوسرے بحران میں ڈوبتی چلی جارہی ہے۔
ان سب کے علاوہ ریزرو آرمی کے اخراجات بھی ہیں ، جنگ کے شروع میں 3 لاکھ افراد کو ریزرو آرمی میں بھرتی کیا گیاتھا جبکہ ابھی ان کی تعداد 50 ہزار ہے، ان میں سے ہر ایک فوجی کی یومیہ تنخواہ 82 ڈالر ہے۔ صرف یہ ادائیگیاں جنگ کے شروع کے تین مہینوں میں 2.5 بلین ڈالر تھے۔
دوسری طرف انخلا کرنے والے شہریوں کو گھر چھوڑنے پر 2.7 بلین ڈالر دیے گئے۔ یہ رقم جنگ کے شروع کے تین مہینے کی ہے ۔یاد رہے کہ انخلا کرنے والے شہریوں کی تعداد ایک لاکھ 25 ہزار ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ مبصرین کے نزدیک غزہ کے خلاف جنگ خود اسرائیل کے اندر موضوع بحث بنی ہوئی ہےخاص طور پر ایسی صورت میں جبکہ یہ جنگ جاری ہے مگر اس کے نتائج ابھی تک نظر نہیں آئے جن کا اعلان اسرائیلی حکومت نے کر رکھا ہے۔
 

شیئر: