Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدلیہ میں ججز کا تقرر، ’آئینی ترامیم سے بھی شفافیت نہ لائی جا سکی‘

ججز کے تقرر کے لیے آئین میں 18ویں اور 19ویں ترامیم کے ذریعے طریقہ کار لایا گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی اعلٰی عدلیہ میں ججز کا تقرر گزشتہ دو دہائیوں سے ملک میں ایک بڑے ایشو یا مسئلے کے طور پر سامنے آیا جو مستقل خبروں میں رہتا ہے۔
اب اعلٰی عدلیہ میں ججز کے تقرر، ججز کی عمر کی حد بڑھانے اور ایک نئی آئینی عدالت کے قیام کے لیے اتحادی حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم لانے کی کوشش نے اس ایشو کو ملک کی سب سے بڑی خبر بنا دیا ہے۔
یہاں ہم جائزہ لیتے ہیں کہ اعلٰی عدلیہ میں ججز کے تقرر کا طریقہ کار کب کیا رہا اور آئینی و قانونی ماہرین اس حوالے سے کس دور کو شفاف یا مثالی سمجھتے ہیں۔

ججز تقرر کا ابتدائی دور کا طریقہ کار

پاکستان میں اعلٰی عدلیہ کے ججز کا تقرر ابتدائی دور میں وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت کی منظوری سے کیا جاتا رہا ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کے لیے وکلا کے نام تجویز کیے جاتے مگر اس سارے عمل کی شفافیت پر سوال اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔

’الجہاد ٹرسٹ کیس‘ کے بعد ’عدلیہ کی آزادی‘

سنہ 1996 میں اعلٰی عدلیہ میں ججز کے تقرر کے طریقہ کار میں شفافیت نہ ہونے کا معاملہ سامنے لاتے ہوئے ’الجہاد ٹرسٹ‘ نامی ایک تنظیم کے روح رواں وکیل وہاب الخیری نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔
اس کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اعلٰی عدلیہ میں ججز کے تقرر کے طریقہ کار میں انتظامیہ کی مداخلت کو ’عدلیہ کی آزادی‘ کے تصور کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ سب سے سینیئر جج ہی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہو گا۔

ججز کے تقرر کے لیے ملکی تاریخ کی اہم قانون سازی

پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ججز کے تقرر کے لیے آئین میں 18ویں اور 19ویں ترامیم کے ذریعے تبدیلی کی گئی ہے۔
آئین میں آرٹیکل 175 اے شامل کیا گیا جس میں سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور ہائیکورٹس میں ججز کے تقرر کے لیے نیا طریقہ کار دیا گیا۔
ان آئینی ترامیم کے ذریعے ججز کے تقرر کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا اور ایک پارلیمانی کمیٹی کو شامل کیا گیا۔

آئینی ترامیم کے لیے اتوار کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا اجلاس بلایا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: اردو نیوز)

ججز تقرر کا موجودہ طریقہ کار

آئین میں کی گئیں 18ویں اور 19ویں ترامیم کے بعد اب ججز کے لیے نام جوڈیشل کمیشن میں بحث کے بعد تجویز کیا جاتا ہے اور اس کی منظوری پارلیمانی کمیٹی سے لی جاتی ہے۔
جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوتے ہیں جبکہ چار سینیئر ترین ججز اس کے ارکان ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر ارکان میں عدالت عظمٰی کا ایک ریٹائرڈ جج دو سال کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان اور وزیر قانون بھی جوڈیشل کمیشن کے ارکان میں شامل ہیں جبکہ وکلا کی تنظیم پاکستان بار کونسل کے نمائندے کو بھی ججز تقرر کے اس کمیشن میں شامل کیا گیا ہے۔
جوڈیشل کمیشن کے تجویز کردہ نام منظوری کے لیے پارلیمانی کمیٹی میں جاتے ہیں جس کے آٹھ ارکان ہیں۔
ججز تقرر کی پارلیمانی کمیٹی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوانوں سے چار، چار ارکان ہوتے ہیں جو حکومت اور اپوزیشن کی برابر نمائندگی کرتے ہیں۔

ججز تقرر میں ’شفافیت کبھی مثالی نہ تھی‘

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی کہتے ہیں کہ اعلٰی عدلیہ میں ججز کے تقرر کے طریقہ کار میں شفافیت کو دیکھا جائے تو صورتحال ’کبھی مثالی نہیں تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم سے پہلے اور بعد میں بھی ججز کا تقرر ’عدلیہ و انتظامیہ کی انڈرسٹینڈنگ سے ہوتا رہا۔‘
عابد ساقی سمجھتے ہیں کہ ’اعلٰی عدلیہ میں ججز کا تقرر وکلا کے ایک خاص طبقے سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کو ایلیٹ ازم کہا جاتا ہے۔‘

ججز تقرر کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوتے ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز

ان کا کہنا تھا کہ یہ ریاست کے سٹرکچر میں ہے اس لیے آئینی ترامیم کے بعد بھی عدلیہ کی آزادی یا ججز کے تقرر میں شفافیت کا خواب پورا نہ ہو سکا۔
سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر صلاح الدین احمد کے خیال میں 18ویں اور 19ویں آئینی ترامیم کے بعد ’ججز کے تقرر کا طریقہ کار قدرے اچھا تھا۔‘
اردو نیوز سے گفتگو میں بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ ’ایشو یہ تھا کہ جوڈیشل کمیشن میں ججز پر بھی تقرر کے لیے کافی پریشر تھا۔ اور اُن کو اپنے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی بھی جوڈیشل کمیشن کے تجویز کردہ ناموں کو دیکھتی ہے، اور اب جوڈیشل کمیشن اپنے قواعد بنا رہا تھا تاکہ مزید شفافیت لائی جا سکے۔ ’عدلیہ کے اندر سے ہی کوشش ہو رہی تھی۔ اور اگر وہ قواعد بن جاتے تو ممکنہ طور پر ججز تقرر کا طریقہ کار مزید بہتر ہو جاتا۔‘

ججز کے تقرر کے طریقہ کار کا ’بہترین دور‘

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ وہ تمام کوششیں ابھی جاری تھیں کہ حکومت نے نئی آئینی ترامیم لانے کا کہہ دیا جس کو اب منفی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 18ویں اور 19ویں ترامیم کے درمیان جس وقت پارلیمانی کمیٹی فعال تھی تو وہ ججز کے تقرر کے طریقہ کار کا ’بہترین دور‘ تھا مگر بعد میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے ذریعے کمیٹی کو ربڑ سٹیمپ بنا دیا گیا۔

مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت حکومت ججز کی عمر کی حد بڑھانا چاہتی ہے۔ فائل فوٹو: سکرین گریب

عابد ساقی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’آئین سازی اور قانون سازی کا ایک سیاق و سباق ہوتا ہے۔ عدلیہ کی آزادی کا نام ہی لیا جاتا ہے۔ اس وقت جو ہو رہا ہے کہ یہ جوڈیشلائزیشن آف پالیٹکس ہے تاکہ اُن ججز کو روکا جا سکے جو طاقت کے سرچشمے کو سُوٹ نہیں کرتے۔‘
عابد ساقی نے کہا کہ ’مجوزہ آئینی ترامیم میں بدنیتی شامل ہے، عوام کی فلاح و بہبود مقصود ہے اور نہ ہی ان ترامیم کے مطمع نظر نظامِ انصاف کو بہتر بنانا ہے۔‘
سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ججز کے تقرر کے طریقہ کار پر پہلا فیصلہ ’الجہاد ٹرسٹ کیس‘ میں سامنے آیا تھا۔
تاہم انہوں نے ججز کے تقرر کے طریقہ کار پر اپنی رائے دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’ذرا دیکھ لیتے ہیں کہ آج کیا ہوتا ہے۔ اس وقت اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔‘

شیئر: