مجوزہ آئینی ترمیمی بل کا مسودہ لیک، حکومت کیا کہتی ہے؟
مجوزہ آئینی ترمیمی بل کا مسودہ لیک، حکومت کیا کہتی ہے؟
پیر 16 ستمبر 2024 16:44
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ’آئینی عدالت میں سات سے آٹھ ججز ہوں گے اور وفاق کی تمام اکائیوں کی نمائندگی ہو گی۔‘ (فوٹو: اے پی پی)
وفاقی حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم کا مسودہ کئی ٹکڑوں میں میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بن چکا ہے۔ جس میں کئی ایک حصوں کو حکومت کی جانب سے تسلیم کرتے ہوئے اسے آئینی پیکیج کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
اس میں آئینی عدالت کے قیام، اس کے دائرہ اختیار کے تعین، آرمی ایکٹ میں ترامیم کو آئینی تحفظ فراہم کرنے، ججوں کی تقرری کے طریقہ کار اور آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجاویز شامل ہیں جبکہ کچھ مجوزہ ترامیم پر حکومت نے چپ سادھ رکھی ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب مسودے کے مطابق مجموعی طور پر 50 سے زائد ترامیم تجویز کی گئی ہیں، جن میں ججز کے متعلق اہم تبدیلیاں اور آرمی ایکٹ کو آئینی تحفظ دینے کی تجاویز شامل ہیں۔
خاص طور پر آئین کے آرٹیکل 63 اے میں مجوزہ ترمیم یہ کہتی ہے کہ اگر کوئی رکن پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے برخلاف ووٹ دے گا تو اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی، لیکن اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا۔
یہ ایک بڑی تبدیلی ہے جو 2022 میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہے، جس میں ایسے ووٹ کو شمار نہ کرنے کا فیصلہ دیا گیا تھا۔
اس مجوزہ آئینی پیکیج میں سب سے بڑی ترمیم آئین کے آرٹیکل 17 میں تجویز کی گئی ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کے متوازی ایک وفاقی آئینی عدالت تشکیل دی جائے گی۔
اس حوالے سے قومی اسمبلی میں وضاحت کرتے ہوئے وزیر قانونی اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 2006 میں میثاق جمہوریت میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے طے کیا تھا کہ ملک میں ایک آئینی عدالت قائم کی جائے گی۔ فروری میں انتخابات کے بعد جب حکومت سازی کے لیے مذاکرات ہوئے اس وقت طے پایا تھا انتقال اقتدار کے بعد پہلی فرصت میں آئینی عدالت قائم کی جائے گی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’آئینی عدالت کی شکل کیا ہو گی، آئینی عدالت میں سات سے آٹھ ججز ہوں جس میں وفاق کی تمام اکائیوں کی نمائندگی ہو جبکہ آرٹیکل 184 کو ریگولیٹ کریں گے۔‘
مجوزہ بل کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے ایک کمیٹی، جو قومی اسمبلی کے آٹھ ارکان پر مشتمل ہو گی، تین سینیئر ججز میں سے ایک نام وزیراعظم کو بھیجے گی۔ یہ کمیٹی تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمائندگی کے تناسب سے تشکیل دی جائے گی اور چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے سات دن قبل اپنی سفارشات فراہم کرنے کی پابند ہو گی تاکہ بروقت تقرری ہو سکے۔
بل میں یہ ترمیم بھی تجویز کی گئی ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہو گی جبکہ سپریم کورٹ کے ججز کو وفاقی آئینی عدالت میں تین سال کے لیے تعینات کیا جائے گا۔ ان ترامیم سے ججز کے تبادلوں اور تقرریوں کے نظام میں نمایاں تبدیلیاں آئیں گی۔
آئینی پیکیج میں آئین کے آرٹیکل 175 اے میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، جس میں ججز کی تقرری کا نیا طریقہ کار شامل ہے۔
ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن کو 12 رکنی کرنے کی تجویز دی گئی جبکہ کمیشن میں چھ ججز، چار اراکین پارلیمنٹ، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کو شامل کرنے کی تجویز تھی۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ’یہ کمیشن کی وہ شکل ہے جو 18ویں ترمیم میں تھی لیکن اس وقت کے چیف جسٹس نے مداخلت کرکے جوڈیشل اور پارلیمانی کمیٹی کو الگ کر دیا۔‘
اعظم نذیر تارڑ نے علی محمد خان کو گواہ بناتے ہوئے کہا کہ ’ججز تعیناتی کی پارلیمانی کمیٹی میں دو ججوں کو واضح رپورٹس کی بنیاد پر جج تعینات نہ کرنے کی سفارش کی۔ کسی وکیل نے کمیٹی کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا اور ہائی کورٹ نے کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
اس موقع پر انھوں نے پنجابی میں کہا کہ ’ایہہ پئی جے پارلیمانی بالادستی‘ اس لیے ہم نے پارلیمان کی عزت بچانے کے لیے مشترکہ کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دی ہے۔‘
ہائی کورٹس کے سوموٹو اختیار کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جس سے ہائی کورٹس کے اختیارات میں کمی آئے گی۔ ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کے نظام کو بھی تبدیل کرنے کی تجویز شامل ہے تاکہ عدالتی نظام میں مزید نظم و ضبط اور شفافیت لائی جا سکے۔
اس حوالے سے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’مشترکہ کمیشن ہائی کورٹس کے ججوں کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ سالانہ بنیادوں پر ان کی کارکردگی کا جائزہ لے گا۔ باقاعدہ چارٹ بن کر آیا کرے گا کہ کس جج نے کتنے کیس سنے، کتنوں کا فیصلہ لکھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ارکان پارلیمنٹ ڈیڑھ لاکھ روپے تنخواہ لیتے ہیں، تین دفعہ بل آیا ہے کہ اڑھائی لاکھ کر دی جائے لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ ہائی کورٹ کے جج تو 12 سے 15 لاکھ لیتے ہیں۔ ان کی کارکردگی کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔‘
آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو آئینی تحفظ دینے کے لیے بھی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
مجوزہ بل کے تحت سروسز چیف کی تقرری اور ایکسٹینشن کے حوالے سے آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے گا اور ان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی صرف آئین میں ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہو گی۔ اس سے آرمی ایکٹ کو مزید مستحکم اور محفوظ بنایا جائے گا۔
اس حوالے سے حکومتی رہنماوں بشمول وزیر قانون خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں تاہم گزشتہ روز وزیر دفاع خواجہ آصف نے صرف اتنا کہا تھا کہ ’کوئی بھی ترمیم کسی مخصوص فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے نہیں ہوگی بلکہ تمام سرکاری ملازمین کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔‘
دوسری جانب حکومت نے واضح کیا ہے کہ سامنے آنے والا مسودہ حتمی نہیں بلکہ اس پر ابھی اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت جاری ہے اور جو مسودہ حتمی طور پر تیار ہو گا اس کی کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی اور کابینہ سے منظوری لی جائے گی تو ہی اسے ایوان میں پیش کیا جائے گا۔