Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئینی ترمیم: حکومت کی ناکامی کی وجہ مولانا فضل الرحمان، عجلت یا مِس ہینڈلنگ؟

آئینی ترمیم کے بغیر ہی پارلیمنٹ کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی
عدالتی اصلاحات سے متعلق آئینی ترامیم پر کئی ہفتوں کی مسلسل کوشش کے باوجود مطلوبہ حمایت نہ ملنے کے بعد وفاقی حکومت فی الوقت پیچھے ہٹ گئی ہے اور یہ معاملہ پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔
سینیٹ میں حکومتی جماعت مسلم لیگ نواز کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے پیر کے روز اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں آئینی ترمیم کے حوالے سے سوالات اٹھائے اور تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
عرفان صدیقی نے بتایا کہ سیاسی جماعتیں بالخصوص مولانا فضل الرحمان ترمیم کے مسودے کا جائزہ لینے کے لیے اس کو فی الحال مؤخر کرنے کے حق میں تھے جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے موجودہ اجلاس ملتوی کر دیے جائیں اور اتفاق رائے پیدا ہونے کے بعد یہ ترمیم پیش کرنے کے لیے نئے اجلاس بلائے جائیں۔  
’مولانا نے حکومت کے پینترے الٹ دیے‘
تو کیا حکومت کی اس ناکامی کی وجہ اس آئینی ترمیم کو عجلت میں لانا ہے، اس کی پیشگی تیاری نہ کرنا یا پھر یہ پورا معاملہ مس ہینڈل ہوا؟
سیاسی تجزیہ کار اور ٹیلی ویژن میزبان نادیہ نقی کے خیال میں حکومت اس معاملے پر عجلت کے ساتھ ساتھ حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوئی ہے۔
وہ کہتی ہیں ’حکومت کا خیال تھا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کو بآسانی منا لیں گے اور جو ادارے حکومت کی مدد کر رہے ہیں وہ اس کام میں بھی حکومت کی مدد کریں گے لیکن مولانا فضل الرحمان نے اس مرتبہ مختلف سیاست کر کے دکھائی ہے۔‘
’اس ناکامی کے پیچھے حکومت کی عجلت، غلط منصوبہ بندی اور حد سے زیادہ خود اعتمادی سب شامل ہے۔ اس سے حکومت کی سبکی ہوئی ہے لیکن ان کی بھی سبکی ہوئی ہے جن کا ان کو ساتھ حاصل ہے اور جن کا پریشر ہے۔‘
نادیہ نقی بتاتی ہیں کہ حکومت نے مولانا فضل الرحمان کو لبھانے کے لیے کئی پیشکشیں بھی کیں لیکن مولانا نے فوراً سے رضامندی ظاہر نہیں کی اور اپنی شرائط رکھیں۔
’انہوں نے حکومت کے سارے پینترے الٹ دیے۔‘

مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کی۔ فوٹو: اے ایف پی

’مولانا نے ثابت کیا کہ وہ جسٹس فائز عیسٰی کے فین نہیں‘
نادیہ نقی کا کہنا ہے کہ ’مولانا نے حکومت کا یہ خیال بھی غلط ثابت کر دیا کہ وہ ان پر مخصوص حلقوں سے پریشر ڈلوا کر اپنا کام نکال سکتی ہے۔ مولانا نے یہ ظاہر کیا کہ وہ قاضی فائز عیسٰی کے فین نہیں ہیں۔ چیف جسٹس ان کے آدمی نہیں ہیں اور ان کی مدت میں توسیع نہیں ہونی چاہیے۔‘
’مولانا یہ سمجھتے ہیں کہ 8 فروری کے بعد کے سیاسی حالات میں سب سے زیادہ نقصان انہوں نے اٹھایا اور اس کی ایک وجہ پی ڈی ایم اتحاد ہے، وہ تنہا رہ گئے۔ اسی لیے اب وہ اپنی طاقت دکھا رہے ہیں۔‘
نادیہ نقی کے مطابق حکومت نے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے بارے میں بھی غلط اندازہ لگایا اور جب اختر مینگل نے ان سے کہا کہ انہوں نے عمران خان کی حکومت میں حمایت کے بدلے گمشدہ افراد رہا کروائے تھے اور اب بھی حکومت ان کے ووٹ کے بدلے دو ہزار افراد کو رہا کرے تو حکومت کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔
’بلاول بھٹو بھی ترمیم کے التوا کے خواہشمند‘
سیاسی جماعتوں کے امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار احمد اعجاز حکومت کی ناکامی کے بارے میں کچھ مختلف رائے رکھتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آئینی ترمیم کے معاملے پر ایک حد سے آگے نہیں گئے اور وہ بھی اس پر مزید مشاورت کے قائل تھے۔
’میرا ذاتی خیال ہے کہ اس ترمیم کو ملتوی کروانے میں دو سیاسی قوتوں کا زیادہ  کردار ہے۔ ایک مولانا فضل الرحمان کا اور دوسرا پاکستان پیپلز پارٹی کا۔‘
’اگر آپ بلاول بھٹو کے بیانات کا جائزہ لیں تو وہ بھی اس ترمیم کے مسودے پر مزید مشاورت کے حق میں بات کر رہے تھے سو بنیادی طور پر مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو کا رویہ اس ترمیم کے التوا کا باعث بنا۔‘

پی ٹی آئی کے وفد نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات میں ترمیم کی مخالفت کا کہا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

’مخصوص قوتوں پر انحصار‘
احمد اعجاز کے مطابق حکومت کی عجلت اور حد سے زیادہ خود اعتمادی دوسری وجوہات ہیں جنہوں نے ان کو ناکام بنایا۔
’حکومت نے اگر یہ ترمیم منظور کروانی تھی تو انہیں دو تین ماہ پہلے اس کی تیاری شروع کرنی چاہیے تھی۔ سیاسی جماعتوں سے رابطے کرنے چاہیے تھے اور مسودے پر بحث کروانی چاہیے تھی۔‘
’لیکن وہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مخصوص قوتیں جو پہلے نمبرز پورے کرتی تھیں وہ اس مرتبہ بھی نمبرز پورے کریں گی اور اس سلسلے میں مدد کریں گی لیکن یہ اندازے اس مرتبہ غلط ثابت ہو گئے۔‘
’ترمیم متنازعہ شقوں کے ساتھ پھر پیش ہو گی‘
نادیہ نقی کے خیال میں اب حکومت صرف اسی صورت میں یہ ترمیم لا سکتی ہے جب وہ اس کی متنازعہ شقوں کا خاتمہ کرے۔
’حکومت یہ ترمیم لے کر آئے گی لیکن اس میں وہ متنازعہ شقیں نہیں ہوں گی جن پر سیاسی جماعتیں معترض ہیں، لیکن اگر وہ ان شقوں کو ختم کیے بغیر یہ ترمیم دوبارہ لے آتی ہے تو پھر یہ کبھی منظور نہیں ہو سکے گی اور حکومت تو اڑ ہی جائے گی۔ پھر انہیں بہت زیادہ شرمندگی ہو گی۔‘

شیئر: