Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی عہدیدار کے قتل کی سازش میں گرفتار پاکستانی شہری کا الزامات سے انکار

آصف مرچنٹ کو 16 ستمبر کو نیویارک کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ فوٹو: روئٹرز
ایران کے ساتھ مبینہ تعلقات رکھنے والے پاکستانی شخص نے پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بدلے میں امریکی عہدیدار کے قتل کی منصوبہ بندی کے الزامات سے انکار کر دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عدالتی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ 46 سالہ آصف مرچنٹ  نے تمام الزامات میں قصوار وار ہونے سے انکار کر دیا ہے جبکہ سماعت 6 نومبر تک ملتوری کر دی گئی۔
امریکی محکمہ انصاف کے پراسیکیوٹر نے بیان میں کہا کہ 46 سالہ آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر امریکہ میں سیاستدانوں یا حکومتی عہدیداروں کو قتل کرنے کے لیے کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ایران میں وقت گزارنے کے بعد آصف مرچنٹ پاکستان سے امریکہ آیا اور ایک شخص سے رابطہ کیا جس کے متعلق اس کا خیال تھا کہ وہ سیاستدان یا حکومتی عہدیدار کے قتل کے منصوبے میں اس کی مدد کر سکتا ہے۔‘
’اس شخص نے مرچنٹ کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رپورٹ کیا اور ایک خفیہ ذریعہ بن گیا۔‘
اس سے قبل امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے کہا تھا کہ ’آصف مرچنٹ کے خلاف کرائے پر دہشت گردی اور قتل کے الزامات سے واضح ہے کہ ہم ان سب کو جوابدہ ٹھہرائیں گے جو امریکہ کے خلاف ایران کے مہلک منصوبوں کی تعمیل کرتے ہیں۔‘
تاہم اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر 13 جولائی کو ہونے والے قاتلانہ حملے کو آصف مرچنٹ کے ساتھ جوڑا جائے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے کہا کہ پاکستانی شہریت رکھنے والے شخص کے ’ایران کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔‘
ایف بی آئی کے ایک اور اہلکار نے کہا کہ آصف مرچنٹ نے جن کرائے کے قاتلوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کی وہ دراصل ایف بی آئی کے خفیہ ایجنٹ تھے۔‘
آصف مرچنٹ کو 12 جولائی کو گرفتار کیا گیا تھا جب وہ امریکہ سے واپس جانے کا ارادہ کر رہے تھے۔
اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے اگست میں کہا تھا کہ ’اس حوالے سے امریکی حکومت کی جانب سے کوئی رپورٹ نہیں موصول ہوئی۔‘
ایرانی نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق مشن نے جاری بیان میں کہا ’یہ واضح ہے کہ سلیمانی کے قاتلوں کا پیچھا کرنے کے لیے ایرانی حکومت کی پالیسی اس طریقہ کار کے برعکس ہے۔‘

شیئر: