Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی شہری کون سی پاکستانی مصنوعات استعمال کر رہے ہیں؟

سعودی عرب کے لیے پاکستان کی برآمدات 2023-24 میں بڑھ کر 698 ملین ڈالر ہو گئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو فراہم کی گئی تجارتی رعایتوں اور مراعات کے باعث  گذشتہ تین برس میں سعودی عرب کے ساتھ تجارت میں پاکستان کی برآمدات میں 67 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب وزارت تجارت کے اعداد وشمار کے مطابق تین سال پہلے یعنی 2020-21 میں سعودی عرب کے لیے پاکستان کی برآمدات 415.75 ملین ڈالر تھیں۔ جو 2023-24 میں بڑھ کر 698 ملین ڈالر ہو گئی ہیں اور آنے والے برسوں میں اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
درآمدات میں اضافے میں کن عناصر نے کردار ادا کیا؟
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی تعلقات کے باعث سعودی عرب ہمیشہ سے ہی پاکستان کی حکومت اور عوام کے لیے تعاون کی نئی راہیں کھولتا رہتا ہے۔ پاکستان کا درآمدی شعبہ کئی برس سے خسارے کا سامنا کر رہا ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب نے تجارتی شعبہ میں پاکستانی مصنوعات کے حوالے سے کئی ایک رعایتیں دے رکھی ہیں جو پاکستانی درآمدات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔
سعودی عرب کے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حکومت، وزارت تجارت اور ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے ذریعے، پچھلے تین سالوں میں سعودی عرب کو برآمدات بڑھانے کے لیے کئی اہم اقدامات اٹھا چکی ہے۔ ان اقدامات میں تجارتی معاہدات کو آسان بنانا، مخصوص شعبوں میں رکاوٹوں کو دور کرنا، نجی شعبے کی مدد کرنا، اور پاکستانی مصنوعات کو تجارتی میلوں اور وفود کے ذریعے سعودی مارکیٹ فروغ دینا شامل ہیں۔
اسی سلسلے میں  پاکستان اور خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے) پر جاری مذاکرات دو طرفہ تجارتی تعلقات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ جس میں سعودی عرب ایک کلیدی رکن ہے۔
یہ معاہدہ کئی مصنوعات پر ٹیرف کو ختم یا کم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جس سے پاکستانی اشیاء سعودی مارکیٹ میں زیادہ مسابقتی ہو جائیں گی۔ اس معاہدے کے حتمی ہونے کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان کو سعودی مارکیٹ میں ترجیحی رسائی حاصل ہو جائے گی۔ خاص طور پر ٹیکسٹائل، خوراک، اور تعمیراتی مواد جیسے شعبوں میں پاکستان کی اہمیت بڑھ جائے گی۔
  سعودی مارکیٹ کے منفرد تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت تجارت نے سعودی عرب کے لیے ایک جامع برآمدی حکمت عملی تیار کی ہے۔ اس حکمت عملی میں ٹیکسٹائل، خوراک (چاول، گوشت، پھل، اور سبزیاں)، فارماسیوٹیکلز، اور تعمیراتی مواد جیسے اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اس طریقے سے وزارت نے سعودی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات کی صحیح انداز میں رسائی کو یقینی بنایا ہے، جس سے تجارتی حجم میں اضافہ ہوا ہے۔
وزارت تجارت نے نجی شعبے کے ساتھ مل کر سعودی عرب کے ساتھ تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ جن میں لاجسٹک چیلنجز، ریگولیٹری رکاوٹیں، اور مارکیٹ میں داخلے کی مشکلات شامل ہیں۔ حکومت کی مدد نے پاکستانی برآمد کنندگان، خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (ایس ایم ایز) کو سعودی مارکیٹ میں قدم جمانے میں مدد فراہم کی ہے۔

 مئی 2024 میں وزارت تجارت نے سعودی عرب سے ایک اعلیٰ سطح کے تجارتی وفد کی میزبانی کی تھی (فوٹو: وزارت تجارت)

 مئی 2024 میں وزارت تجارت نے سعودی عرب سے ایک اعلیٰ سطح کے تجارتی وفد کی میزبانی کی تھی۔ جس کا مقصد باہمی کاروباری تعلقات کو مضبوط بنانا تھا۔ اس دورے کے دوران مختلف شعبوں، جیسے زراعت، ٹیکنالوجی، فارماسیوٹیکلز، اور تعمیرات میں کئی مفاہمتی یادداشتوں (ایم او یوز) پر دستخط ہوئے۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں آنے والے سالوں میں پاکستان کی برآمدات میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
 پاکستانی مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے، ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان ہر سال سعودی عرب میں ہونے والے تجارتی میلوں میں متعدد پاکستانی کمپنیوں کی شرکت کا اہتمام کرتی ہے۔ یہ میلے پاکستانی برآمد کنندگان کو اپنی مصنوعات پیش کرنے، سعودی خریداروں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے، اور منافع بخش معاہدے حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اس اقدام نے سعودی مارکیٹ میں پاکستان کی نمائش اور مسابقت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سعودی عرب کو برآمد کی جانے والی اہم پاکستانی مصنوعات
دونوں حکومتوں کی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کی سعودی عرب کو برآمدات میں کافی تنوع آیا ہے۔ مختلف اشیا نے تجارت میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
 ٹیکسٹائل انڈسٹری سعودی عرب کو پاکستان کی برآمدات کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ کاٹن فیبرکس، بیڈ لینن، اور ریڈی میڈ گارمنٹس سعودی مارکیٹ میں اعلیٰ معیار اور سستے ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ مانگ میں ہیں۔ سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی آبادی اور معیاری ٹیکسٹائل کی بڑھتی ہوئی مانگ نے پاکستان کے لیے اس مارکیٹ میں مستقل برآمدات کو ممکن بنایا ہے۔
2023-24 کے مالی سال میں پاکستان نے سعودی عرب کو تقریباً 150 ملین ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کیں، جو اس شعبے کو برآمدات میں سرفہرست رکھتی ہیں۔
 سعودی عرب میں پاکستانی خوراک کی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر چاول، گوشت، اور تازہ پیداوار کی اقسام میں باسمتی چاول اپنی اعلیٰ معیار کی وجہ سے سعودی صارفین میں بہت مقبول ہے۔ اسی طرح پاکستان کے حلال گوشت، خاص طور پر بیف اور مٹن کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سعودی عرب کی مسلمان آبادی کی مذہبی ضروریات ہیں۔ تازہ پھل جیسے آم، کینو اور سبزیاں جیسے پیاز اور آلو کی برآمدات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

 پاکستان کی فٹ بالز جیسی کھیلوں کی مصنوعات سعودی مارکیٹ میں بہت زیادہ مقبول ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

سال 2023-24 میں پاکستان نے سعودی عرب کو تقریباً دو لاکھ میٹرک ٹن باسمتی چاول برآمد کیے، جس کی مالیت تقریباً 130 ملین ڈالر رہی جبکہ حلال گوشت کی برآمدات 80 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ پھل اور سبزیوں کی تازہ پیداوار کی برآمدات 50 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔
پاکستان کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری نے سعودی مارکیٹ میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ جس میں جنرل ادویات، طبی سپلائیز، اور صحت کی دیکھ بھال کا سامان شامل ہے۔ سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے صحت کے شعبے نے اس نمو میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سال 2023-24 میں فارماسیوٹیکل برآمدات 60 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں، جس سے پاکستانی طبی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ کی عکاسی ہوتی ہے۔
سعودی عرب اپنے ویژن 2030 کے تحت انفراسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے تعمیراتی مواد کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری نے اس ترقیاتی منصوبے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ سیمنٹ کی برآمدات 2023-24 میں 40 ملین ڈالر کی رہیں۔
 پاکستان کی فٹ بالز جیسی کھیلوں کی مصنوعات اور چمڑے کی مصنوعات جیسے جیکٹس، جوتے، اور دستانے سعودی مارکیٹ میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔ کھیلوں کا سامان اور چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات 2023-24 میں 30 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تجارتی تعلقات مزید مستحکم ہونے کی توقع ہے۔ خاص طور پر جب دونوں ممالک نئے شعبوں جیسے قابل تجدید توانائی، ٹیکنالوجی، اور سیاحت میں تعاون کے مواقع تلاش کر رہے ہیں تو دونوں ممالک کی باہمی تجارت نئی بلندیوں کو چھو سکتی ہے جس کا فائدہ اگرچہ دونوں ممالک کو ہوگا، لیکن معاشی لحاظ سے کمزور پاکستانی معیشت اس سے حقیقی فائدہ اٹھا سکے گی۔

شیئر: