Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یورپی ممالک کے ویزے کی اپوائنٹمنٹ، ’60 دن قطار میں لگ کر انتظار کیا‘

سپین کے سفارت خانے نے ویزہ درخواستیں وصول کرنے کا کام ٹی سی ایس ویزٹرونکس نامی کوریئر کمپنی کو سونپ رکھا ہے. (فوٹو: ایکس)
’میں صبح سویرے اُٹھتا اور تیار ہو کر قطار میں لگ جاتا۔ میرا یہ معمول 60 روز تک جاری رہا تب جا کر میری باری آئی اور میری ویزے درخواست جمع ہوئی۔ اس عرصے کے دوران میں ہوٹل میں قیام کیا کرتا جس پر میرے تین لاکھ روپے سے زائد خرچ ہوئے۔‘
یہ کہنا ہے گجرات سے تعلق رکھنے والے اویس احمد کا جنہوں نے یورپی ملک سپین کا ویزہ لگوانے کے لیے مسلسل 60 دن قطار میں لگ کر گزار دیے۔
پاکستان سے یورپی ممالک جانے کے لیے نوجوانوں کی بڑی تعداد قانونی و غیر قانونی طریقوں کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ پہلے سے سپین اور دیگر یورپی ممالک میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد پہنچ جانے کے بعد اب یا تو وہ لوگ اپنے اہل خانہ کو بلا رہے ہیں یا اپنے قریبی عزیزوں کے لیے ورک پرمٹ پر ویزے لگوا رہے ہیں۔
 لیبیا اور یونان میں کشتی حادثات کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد اب  قانونی ویزوں کے حصول کے لیے کوشاں ہے جس کی وجہ سے ویزہ درخواستیں جمع کرانے میں کئی کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔
اٹلی کے سفارت خانے میں ویزہ درخواستیں موصول کرنے کا سلسلہ تو ایک عرصے سے مشکلات کا شکار ہے اور اپوائنٹمنٹ کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
شہریوں کے مطابق ڈیڑھ دو لاکھ روپے سے شروع ہونے والی اپوائنٹمنٹ کا ریٹ اب آٹھ نو لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔
سپین کے سفارت خانے نے ویزہ درخواستیں وصول کرنے کا کام ٹی سی ایس ویزٹرونکس نامی کوریئر کمپنی کو سونپ رکھا ہے، جو سفارت خانے کی پالیسی کے مطابق محدود تعداد میں درخواستیں وصول کرتی ہے۔
اس کے سبب لوگ بڑی تعداد میں قطاروں میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اور بہت سوں کو قطار میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہفتے بیت جاتے ہیں۔
اویس احمد بھی ان میں سے ایک ہیں جو ورک پرمٹ پر سپین جانا چاہتے تھے۔ انھوں نے دو ماہ قطار میں لگ کر ویزہ درخواست جمع کروائی۔ وہ کامیاب رہے، ان کا ویزہ لگ گیا اور وہ سپین چلے گئے۔

پاکستان سے یورپی ممالک جانے کے لیے نوجوانوں کی بڑی تعداد قانونی و غیر قانونی طریقوں کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے ویزہ لگوانے کی اپنی جدوجہد کے بارے میں بتایا کہ ’میں جب گاؤں سے آیا تو مجھے اسلام آباد کے بارے میں زیادہ پتہ نہیں تھا اور صرف یہ سوچ کر آیا تھا کہ ویزے کی درخواست جمع کروا کر ہی واپس آنا ہے۔‘
’ابتدائی معلومات کے بعد ہی پتہ چل گیا تھا کہ یہ ایک دو دن کی بات نہیں ہے۔ گھر والوں سے مزید پیسے منگوائے اور تین ہزار روپے یومیہ پر ہوٹل کا کمرہ لیا۔ روزانہ صبح سویرے اٹھ کر تیار ہوتا اور قطار میں لگ جاتا لیکن ورک پرمٹ پر ویزہ کے لیے روزانہ دو چار امیدواروں کو ہی سفارت خانے کی جانب سے بلایا جاتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہر گزرتے دن کے ساتھ مجھے احساس ہوا کہ جتنی جلدی قطار میں لگوں گا اتنے ہی زیادہ چانسز ہیں کہ باری آ جائے۔ بالآخر 60 دن بعد میری باری آئی۔ تب تک ہوٹل کا کھانا کھا کھا کر اور گھر سے دور رہ رہ کر میری اپنی حالت بھی غیر ہو چکی تھی جس پر میرے تین لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہوئے۔‘
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ایجنٹ بھی رابطہ کرتے تھے لیکن وہ بہت زیادہ ڈیمانڈ کرتے تھے جس کے باعث میَں نے اُن کی خدمات حاصل نہیں کیں۔‘
ایک اور نوجوان مدثر علی نے بھی کچھ دن قطار میں لگ کر ویزہ لگوانے کی کوشش کی لیکن انھیں کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ وہ ایجنٹ سے معاملات طے کر رہے تھے جب انہیں اطلاع ملی کہ سفارت خانے کی ہدایت پر ویزٹرونکس نے اپوائنٹمنٹ آن لائن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آن لائن سسٹم شروع ہوا تو انھوں نے آن لائن اپلائی کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں معلوم ہوا کہ پہلے ایک گھنٹے میں ہی پورے ایک مہینے کی تمام اپوائنٹمنٹس بک ہو چکی ہیں۔ یہ بھی ایجنٹوں کا کیا دھرا ہی تھا۔
مدثر علی نے بتایا کہ ’دو تین ایجنٹس نے رابطہ کیا اور ساڑھے تین لاکھ روپے کا مطالبہ کیا لیکن انھوں نے کوئی رسک نہیں لیا۔ ہم نے اس صورتحال پر سفارت خانے کو ای میلز کرنا شروع کر دیں۔ جو بھی ملتا اسے اس معاملے پر سفارت خانے کو ای میل کرنے کا مشورہ دیتے۔ یوں وہ تمام اپوائنٹمنٹس منسوخ ہو گئیں، جس کے بعد اپوائنٹمنٹ بک کرنے والے کی تصویر اپ لوڈ کرنے کی شرط عائد کر دی گئی جس سے ایجنٹوں کا راستہ بند ہوا اور لوگ از خود اپوائنٹمنٹ بک کرکے ویزہ درخواست جمع کرانے لگے ہیں جس سے معاملہ حل ہوا اور میری ویزہ درخواست بھی جمع ہوئی۔‘

سپین کے سفارت خانے نے ویزٹرونکس کے ساتھ مل کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ (فوٹو: ایکس)

سپین کے سفارت خانے نے ویزٹرونکس کے ساتھ مل کر اگرچہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب ہوا بھی ہے لیکن اس کے باوجود ویزٹرونکس کے باہر موجود شہری شکایات کرتے ہیں کہ ’ادارے کے اندر بھی ایجنٹس متحرک ہیں جو اس سسٹم میں بھی اپنا راستہ نکال چکے ہیں۔‘
تاہم ویزٹرونکس حکام نے اس کی تردید کی ہے۔
دوسری جانب اٹلی کے سفارت خانے میں ویزہ درخواستوں کے جمع کرانے کے لیے اپوائنٹمنٹ کا نیا طریقہ کار بھی ناکام ہوچکا ہے اور سفارت خانے کی جانب سے ٹیلی فون پر اپوائنٹمنٹ لینے کا نظام بھی کام نہیں کرسکا۔
 سفارت خانے نے اس مقصد کے لیے دیے گئے فون نمبرز بھی بند کر دیے ہیں۔
رخسار احمد کا ورک پرمٹ بھی اٹلی سے آیا ہے اور وہ گذشتہ دو ماہ سے تمام تر کوششیں کرچکے ہیں لیکن انھیں اپوائنٹمنٹ نہیں ملی۔
انہوں نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپوائنٹمنٹ لینے کے لیے پانچ لاکھ روپے دینے کو تیار ہوں لیکن اب تک جو ایجنٹ ملے ہیں وہ نو لاکھ روپے کا تقاضا کر رہے ہیں۔‘
اس حوالے سے جب اٹلی کے سفارت خانے سے رابطے کی کوشش کی گئی تو بارہا رابطہ کرنے کے باوجود ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اٹلی کی وزارت خارجہ اس صورتحال کا دو بار نوٹس لے کر اطالوی اور پاکستانی عملہ تبدیل کر چکی ہے لیکن کوئی بہتری دکھائی نہیں دی۔

شیئر: