صدر بائیڈن نے لبنان میں تشدد میں اضافے کے حوالے سے بھی خبردار کیا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں سوڈان کے تنازع کے حل، غربت، جنگوں اور موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے عالمی تعاون پر زور دیا۔
’بطور رہنما ہمارے پاس کوئی عیاشی نہیں۔ مجھے یوکرین سے غزہ تک اور جنگ، بھوک، دہشت گردی، ظلم، لوگوں کی بے گھر ہونے، موسمیاتی تبدیلی اور جمہوریت کو درپیش خطرات کے چیلنجز کا ادراک ہے۔‘
صدر بائیڈن نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ ان کی انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں استحکام لانے پر کام کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے مصائب کو بھولنا یا قبول کرنا چاہیے۔
امریکی صدر نے کہا کہ ’250 معصوم لوگوں کو یرغمال بنایا گیا۔ میں یرغمالیوں کے خاندانوں سے ملا ہوں۔ میں نے ان سے تعزیت کی اور یہ لوگ بہت مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔‘
’غزہ میں معصوم سویلینز پر قیامت گزر رہی ہے۔ ہزاروں لوگ بشمول امدادی کارکنان مارے گئے ہیں۔ ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے اور خیموں میں زندگیاں گزار رہے ہیں اور انتہائی ناگفتہ بہ صورتحال کا سامنا کر رہے پیں۔ وہ یہ جنگ نہیں چاہتے تھے جس کی شروعات حماس نے کی۔‘
صدر بائیڈن نے کہا کہ ’میں نے قطر اور مصر کے ساتھ مل کر جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا منصوبہ پیش کیا جس کی توثیق اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے بھی کی۔ اب وقت ہے کہ فریقین اس کی شرائط کو حتمی شکل دیں، یرغمالیوں کو واپس لائیں اور اسرائیل اور غزہ کی سکیورٹی یقینی بنائیں اور غزہ کے لوگوں کے مصائب کو کم کریں اور اس جنگ کو ختم کریں۔‘
صدر بائیڈن نے کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد ہم ایک خطے میں وسیع جنگ کو ٹالنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ’حزب اللہ بغیر کسی اشتعال کے حماس کے حملے میں شریک ہوئی اور اسرائیل پر راکٹ داغا۔ اور ایک سال بعد اسرائیل اور لبنان سرحد پر دونوں اطراف سے بہت سارے لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔‘
’مکمل جنگ کسی کے مفاد میں نہیں۔ اور موجودہ کشیدہ صورتحال کے باوجود سفارتی حل اب بھی ممکن ہے۔ درحقیقت یہ ہی پائیدار امن و سلامتی کی طرف جانے والا واحد راستہ ہے۔‘