Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن کے ’آفاقی کردار‘ نوابزادہ نصراللہ خان کے انتقال کے 21 برس بعد نشان امتیاز کا اعلان

نواب زادہ نصراللہ خان کے سیاسی کریڈٹ پر اپوزیشن کے 18 اتحاد ہیں جن کی سربراہی انہوں نے مختلف اوقات میں کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی 21 ویں برسی پر ان کے لیے سول اعزاز نشان امتیاز کی سفارش کی ہے۔
نوابزادہ نصراللہ خان 27 ستمبر 2003 کو سابق صدر اور آمر پرویز مشرف کے دور میں اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔
وہ پاکستان کے واحد سیاست دان سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی 70 برس کی سیاست میں اپنے لیے حزب اختلاف کے کردار کا انتخاب کیا۔ ان کی طبیعت میں اختلاف قیام پاکستان سے بھی پہلے اس وقت سامنے آیا جب اپنے آباؤاجداد کے برعکس انہوں نے جماعت الاحرار میں شمولیت کر کے انگریز کے نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔
انگریز سرکار نے سنہ 1910 میں ان کے والد سیف اللہ کو نواب کے خطاب سے نوازا تاہم چند برس بعد 13 نومبر 1916 میں پیدا ہونے والے نوابزادہ نصراللہ نے سنہ 1933 میں عملی سیاست انگریز کے خلاف شروع کی۔
نواب زادہ نصراللہ کے خاندان کا تعلق پشتون قبیلے ککیزئی سے ہے۔ ان کے آباؤ اجداد 18 ویں صدی میں مظفر گڑھ کے علاقے میں آباد ہو گئے تھے۔

حزب اختلاف کی سیاست

سیاسی مبصرین کے مطابق نواب زادہ نصراللہ خان قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ سے وابستہ ہو گئے اور سنہ 1951 کے صوبائی انتخابات میں دو نشستوں سے کامیاب ہوئے لیکن جلد ہی مسلم لیگ کی جانب سے شہری پابندیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے مستعفی بھی ہو گئے۔
سنہ 1958 کے مارشل لا میں وہ ایوب خان کی مخالفت میں کھل کر سامنے آئے اس وقت وہ عوامی لیگ میں تھے۔ بالواسطہ انتخابات میں وہ 1962 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور انہوں نے ایوب خان کے خلاف پہلے سیاسی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ (این ڈی ای) کی بنیاد رکھی۔
نواب زادہ نصراللہ خان کی سیاست کے عینی شاہد سینیئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نواب زادہ نصراللہ خان کی شخصیت حزب اختلاف کے آفاقی کردار کی سی ہے۔
’انہیں اپوزیشن کرنے کا شوق تھا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ جمہوری حکومت میں مارشل لگوانے کا سبب بنتے تھے اور مارشل لا میں جمہوری حکومت واپس لانے میں پیش پیش ہوتے تھے۔ جس حکومت کے خلاف جدوجہد کرتے تھے وہ حکومت ختم ہو جاتی تو اسی پارٹی کے ساتھ پھر اپوزیشن میں اکٹھے ہو جاتے۔‘

نواب زادہ نصراللہ خان نے ایوب خان کے خلاف پہلے سیاسی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ (این ڈی ای) کی بنیاد رکھی تھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

نواب زادہ نصراللہ خان کے سیاسی کریڈٹ پر اپوزیشن کے 18 اتحاد ہیں جن کی سربراہی انہوں نے مختلف اوقات میں کی۔ ان میں پاکستان قومی اتحاد، ایم آر ڈی، این ڈی اے، اے آر ڈی، اے پی سی اور دیگر سیاسی اتحاد شامل ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے اے آر ڈی کے نام سے ایک ایسا پلیٹ فارم بنا کر بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ ن کو ایک فورم پر جمع کیا۔ 
انہوں نے ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا الحق، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔
نوابزادہ نصراللہ خان کو اپنی سیاسی زندگی میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں، کئی مرتبہ جیلوں میں گئے اور متعدد بار نظر بند رہے۔
ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار بنانے میں ان کا کلیدی کردار تھا۔ مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ وہ بس ایک مرتبہ بے نظیر کے دوسرے دور حکومت میں حکومتی بینچوں پر بیٹھے جب انہیں کشمیر کمیٹی کا چئیرمین بنایا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہمیشہ اپوزیشن کرنے کو ہی ترجیح دی۔
نواب زادہ نصراللہ خان ایک شاعر بھی تھے۔ ضیا الحق کے دور میں جب ان کو ان کے اپنے آبائی گھر خان گڑھ میں نظر بند کر دیا گیا تو انہوں نے ایام اسیر میں اپنی مشہور زمانہ نظم لکھی جو آمریت کے خلاف آج بھی ایک مضبوط آواز ہے۔
کتنے بے درد ہیں کہ صر صر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیا کہتے ہیں

شیئر: