ڈاکٹر مہدی حسن: معاشرے کو بہتر بنانے کے خواب بکھر کر رہ گئے
ڈاکٹر مہدی حسن: معاشرے کو بہتر بنانے کے خواب بکھر کر رہ گئے
جمعرات 24 فروری 2022 5:57
محمود الحسن -لاہور
ڈاکٹر مہدی حسن آمریت کے خلاف تھے جس کی انہوں نے بھاری قیمت ادا کی (فوٹو: ٹوئٹر)
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا!
الطاف حسین حالی کا یہ مصرع پامال ہو چکا لیکن پاکستان کی دانش ورانہ اور تدریسی تاریخ میں جو بہت کم لوگ اس مصرع کے صحیح سزاوار ہیں ان میں ڈاکٹر مہدی حسن کا نام نمایاں تر ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن روشن دماغ تھے۔ روشن خیالی ان کے لیے ذہنی سرگرمی نہیں طرز زندگی کا درجہ رکھتی تھی۔ ڈاکٹر مہدی حسن بے باکی سے سچ کہنے والے اس قبیلے کے فرد تھے جو اب اس ملک میں معدوم ہوتا جا رہا ہے۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
اس رجعت پسند معاشرے میں جس طرح انھوں نے خرد افروزی کا چراغ جلایا یہ انہی کا حصہ تھا۔
عربی زبان وادب کے ممتاز عالم اور اردو کے نامور ادیب محمد کاظم کے اس قول سے اندازہ ہو سکے گا کہ ڈاکٹر مہدی حسن کس قدر پرخطر راہ کے مسافر تھے: ’رجعت پسند اور روایت پرست معاشروں میں آزاد خیالی تو کسی طور پنپ لیتی ہے کہ یہ عموماً شخصی اور انفرادی دائرے میں محدود رہتی ہے لیکن آزادی رائے اپنی سزا بھگتے بغیر نہیں رہتی اور بہت کم ایسا ہوا ہے کہ وہ اپنے انجام سے بچ کر نکل گئی ہو۔‘
ڈاکٹر مہدی حسن نے اپنے نظریات کی بڑی بھاری قیمت ادا کی۔ قانون کی حکمرانی پر ان کا یقین تھا۔ اسی یقین نے ان میں آمریت کے خلاف جرأت اظہار پیدا کی۔ جب انہوں نے یحییٰ خان کے زمانے میں مارشل لاء پر تنقید کی تو نوکری سے نکالے گئے۔ دس ماہ کی قانونی لڑائی کے بعد بحال ہوئے۔
ضیا الحق کے دور میں بھی نوکری سے برخاست ہوئے اور ہائی کورٹ کے سٹے آرڈر سے یونیورسٹی کا بند دروازہ اپنے لیے کھلوایا۔ ان کے ’جرم‘ کی نوعیت یہ تھی کہ تحریک بحالی جمہوریت کے دوران نواب شاہ کے ایک قصبے میں نہتے شہریوں پر گولی چلی تو اس جارحیت کے خلاف دستخطی مہم شروع ہوئی۔ وہ اس مہم میں شامل ہوئے۔ ظاہری بات ہے نازک مزاج شاہاں کے لیے یہ جسارت کیسے قابل قبول ہوتی۔
سات برس پہلے ایک قومی اخبار کے لیے ان کا انٹرویو کیا تو کچھ اور حقائق بھی معلوم ہوئے۔ نامور قانون دان رضا کاظم نے ان کا مقدمہ لڑنے کی ہامی بھری لیکن پہلی پیشی سے قبل ہی وہ گرفتار ہو گئے۔ مقدمے کی سماعت شروع ہونے پر جج صاحب نے وکیل صاحب کے بارے میں استفسار کیا تو یہ گویا ہوئے کہ وہ آپ کے دائرہ سماعت سے باہر اٹک قلعے میں قید ہیں اس لیے اب میں اپنا وکیل آپ ہوں۔
اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جسٹس غلام مجدد مرزا نے ان سے کہا کہ وہ سیاست کیوں کرتے ہیں؟ ڈاکٹر مہدی حسن نے جواب دیا کہ وہ سیاست نہیں کرتے اپنے منصب سے انصاف کی کوشش کرتے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ طلبہ کو باور کروایا جائے کہ آمریت ملکی مفادات کے خلاف ہے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ انہیں سٹے آرڈر مل گیا جو ان کی ریٹائرمنٹ تک چلا۔
پنجاب یونیورسٹی میں ان کی زندگی اجیرن کرنے میں اسلامی جمعیت طلبہ کا بڑا کردار رہا۔ ان کی کردار کشی ہوئی۔ اس نوع کے پوسٹر لگے: مہدی حسن بھگاؤ ملک بچاؤ!
اس غیرموافق ماحول میں وائس چانسلر نے بھی انھیں عزیمت کے بجائے رخصت کی راہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کا جواب تھا کہ جمعیت کا دائرہ نہر کے پل تک ہے، میرا دائرہ اثر اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی میں ان پر کیا گزری اس کا قصہ طولانی ہے۔
ذاتی حوالے سے بات کروں تو ان کا نام میں نے سب سے پہلے طارق عزیز کے ’نیلام گھر‘ میں سنا جب پروگرام کے میزبان، مہدی حسن کے ساتھ ساہیوال سے لاہور آنے کے بعد کڑے زمانے کا ذکر کر رہے تھے۔
انٹرویو میں ان ایام کے بارے میں کریدا تو ڈاکٹر مہدی حسن نے بتایا: ’1964 کی بات ہے۔ طارق ریڈیو میں ڈیڑھ سو روپے تنخواہ پر اناؤنسر تھا۔ میں پی پی آئی سے وابستہ تھا اور میری تنخواہ 165 روپے تھی۔ بھاٹی گیٹ کے قریب ہم ایک کمرے میں رہتے، جس کا کرایہ میں دیتا کیونکہ میری تنخواہ طارق سے زیادہ تھی۔ اس زمانے میں کرائے کے کمروں میں پنکھوں کا رواج نہیں تھا۔ ایک روز گرمی نے طارق کو خاصا زچ کیا تو ہم لاء کالج کے پرنسپل کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ چھٹیوں میں اگر ایک کمرے میں ہمیں رہنے کی اجازت مل جائے تو مہربانی ہو گی، وہ مان گئے۔ برابر کے کمرے میں جمعدار گرمیوں کی چھٹیاں انجوائے کرتے۔ ایک دن ڈیوٹی سے واپس آیا تو طارق خلاف معمول جاگ رہا تھا، میں نے کہا سوئے نہیں؟ اور تم میری چارپائی پر کیوں ہو؟ میں نے دیکھا تو جمعدار میری چارپائی پر سو رہا تھا۔ میں نے طارق سے کہا اسے اٹھاؤ تو اس نے بتایا کہ وہ کوشش کر چکا ہے اور شراب میں دھت اس بندے سے گالیاں کھا چکا ہے۔ میں نے کہا آؤ اس کی چارپائی الٹاتے ہیں۔ ایسا کرنے پر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور گالیاں دیتا دفعہ ہو گیا۔ اس پر طارق نے کہا کہ جمعدار سے بھی گالیاں کھالیں، اس سے زیادہ ذلت کیا ہو گی، تو اب میرے دن بدلیں گے۔ اس کا کہا سچ ثابت ہوا، چند دن بعد پی ٹی وی کا آغاز ہوا تو طارق کو اناؤنسر کی نوکری ملی، اور اس کی تنخواہ ڈیڑھ سو سے چھ سو روپے ہو گئی۔‘
اس نشست کے دوران میں نے ان کی کتاب ’مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ذرائع ابلاغ کا کردار‘ دستخط کرنے کے لیے آگے کی تو مجھے محسوس ہوا جیسے انھیں اس سے خوشی ہوئی۔ یہ کتاب 1977 میں شائع ہوئی تھی اور اب کمیاب تھی۔ کہنے لگے کہ یہ آپ کو کہاں سے ملی؟ میں نے کہا ’انارکلی میں پرانی کتابوں کے بازار سے۔‘
اس وقت میرے علم میں نہیں تھا کہ جس موضوع پر مذکورہ کتاب ہے اسی پر نامور شاعرہ پروین شاکر ڈاکٹریٹ کر رہی تھیں لیکن افسوس ان کی حادثاتی موت کی وجہ سے یہ کام پورا نہیں ہو سکا۔
ڈاکٹریٹ کی بات ہورہی ہے تو لگے ہاتھوں یہ بتا دیں کہ ڈاکٹر مہدی حسن نے پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں ایم اے کرنے کے بعد اسی تعلیمی ادارے سے Role of press in formation in public opinion 1857_1947 کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔
عملی صحافت کا لپکا تھا لیکن 1967 میں پروفیسر حمید احمد خان اور ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی تحریک پر تدریس سے متعلق ہو گئے۔ تدریسی ذمہ داریوں نے انہیں اردو اور انگریزی میں صحافت اور سیاست پر لکھنے سے غافل نہیں کیا اور وہ ان موضوعات پر برابر قلم اٹھاتے رہے۔ 1998 میں پروفیسر کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئے۔ بیچ میں انتقامی کارروائی کی وجہ سے 18 برس لیکچرر ہی رہے۔ اس کا انہیں ملال نہیں تھا کہ ان کے نزدیک طالب علموں کی محبت اور تکریم کے مقابلے میں جاہ و منصب ہیچ ہیں۔
ان کے شاگرد اور سینئر صحافی اسلم ملک نے ہمیں بتایا کہ وہ ایک با اصول آدمی تھے، روشن خیال اور سیکولر۔ تشدد اور انتہاپسندی سے انہیں نفور تھا۔ نظریاتی اعتبار سے بڑے مخلص تھے لیکن ان کے دروازے ہر مکتب فکر کے افراد کے لیے کھلے تھے کیونکہ ان کا مکالمے پر یقین تھا۔ ایک دلچسپ بات اسلم ملک نے یہ بتائی کہ ڈاکٹر مہدی حسن کی محفلوں میں شریک ایک مخبر بھی ان کے اخلاق اور شائستگی سے متاثر ہو کر ان کا گرویدہ ہو گیا۔
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ
پنجاب یونیورسٹی کے بعد ایک نجی یونیورسٹی میں جرنلزم اور ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے بانی ڈین کی حیثیت سے کئی برس کام کیا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے دو دفعہ چیئر پرسن منتخب ہوئے۔ پی ایف یو جے سے بھی مختلف حیثیتوں سے ان کی وابستگی رہی۔ سال 2012 میں حکومت پاکستان نے صحافت میں ان کی خدمات پر انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا۔
ڈاکٹر مہدی حسن کی ذاتی زندگی کا احوال بھی اجمالاً یہاں ضروری محسوس ہوتا ہے۔
1857 کے غدر نے ان کے خاندان کو دلی سے اکھاڑ کر پانی پت سکونت پر مجبور کیا۔ 1947 کی تقسیم نے ان سے مجبوراً پانی پت بھی چھڑوا دیا۔ تقسیم کے بعد ان کا خانوادہ منٹگمری (ساہیوال) منتقل ہوا جہاں سے انھوں نے گورنمنٹ کالج منٹگمری سے گریجویشن کی۔
سابق وزیر خزانہ اور پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مبشر حسن ان کے تایا زاد بھائی تھے۔ پیپلز پارٹی کن حالات میں قائم ہوئی اور اس نے کیسے مقبولیت حاصل کی وہ ان کے سامنے کی بات ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کی بامعنی اور باوقار زندگی ختم ہو گئی لیکن ان کے اس معاشرے کو بہتر بنانے کے خواب بکھر کر رہ گئے۔ وہ روادار، روشن خیال اور ترقی یافتہ معاشرے کے خواہاں تھے لیکن ان اعتبارات سے ہم نے معکوس سفر کیا۔
ڈاکٹر مہدی حسن کو یاد کرنے کا بہترین قرینہ یہ ہے کہ ہم ایک egalitarian معاشرے کے قیام کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کر سکیں۔
چند ماہ پہلے سوشل میڈیا پر معروف شاعر اور ہیومن رائٹس کمیشن کے جنرل سیکرٹری حارث خلیق کی ڈاکٹر مہدی حسن کے ساتھ تصویر دیکھ کر دل بجھ کر رہ گیا تھا۔ بیماری نے انہیں چر لیا تھا ۔ان کی سلامتی کی دعا کی لیکن ساتھ میں یہ دھڑکا بھی لگ گیا کہ شاید اب ساز ہستی خاموش ہونے کو ہے اور آج وہ خبر آگئی جس نے ہم سب کو اداس کر دیا ہے۔
وہ احمد مشتاق کے اس شعر کی جیتی جاگتی مثال تھے اور رہیں گے:
تزئینِ کائنات کا باعث وہی بنے
دنیا سے اختلاف کی جرأت جنہوں نے کی