Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 وہ اس محفل میں سب سے منفرد، سب سے جُدا تھا: عامر خاکوانی کا کالم

نوابزادہ نصراللہ خان ون مین آرمی تھے اور ہر اپوزیشن اتحاد کے رُوحِ رواں رہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
داغستان کے لیجنڈ شاعر رسول حمزہ توف نے اپنی کتاب میں ایک قدیم حکایت نقل کی، لکھتے ہیں کہ ایک ناکام شاعر نے سمندر سے ایک سنہری مچھلی پکڑی۔ مچھلی نے لجاجت سے اسے کہا ’شاعر، شاعر! مجھے سمندر میں واپس ڈال دو۔‘
شاعر نے پوچھا، تم مجھے کیا صِلہ دو گی؟ مچھلی نے کہا کہ تمہاری تمام دلی خواہشیں پوری ہو جائیں گی۔ شاعر بہت خوش ہوا۔ اس نے سنہری مچھلی کو سمندر میں چھوڑ دیا۔
پھر شاعر کی زندگی بدل گئی۔یکے بعد دیگر نت نئی کامیابیاں اس کے قدم چُومنے لگیں۔ اس کے مجموعے دھڑا دھڑ بازار میں آنے لگے۔ اسے شہر میں مکان اور دیہی علاقے میں بنگلہ مل گیا۔ شہرت حاصل ہوئی اور اس قدر کہ ہر شخص اس کے گیت گانے لگا۔ 
اس نے اعلٰی عہدے حاصل کیے، کئی بڑے سرکاری اعزاز اور تمغے بھی۔ دنیا اب اس کے لیے ایسی تھی گویا گرما گرم کباب سے بھری طشتری سامنے رکھی ہو، پیاز کی ہوائی رکھی ہوئی اور لیموں کا رس چِھڑکا ہوا۔ بس ہاتھ بڑھاﺅ اور کباب کے مزے لو۔
 بہت سال بعد جب وہ اکادمی کا ممبر اور پارلیمنٹ کا رکن بن چکا تھا، حکومت کی جانب سے اسے خطاب بھی ملا تھا۔ ایک دن اس کی اہلیہ نے معصومیت کے ساتھ اس سے سوال کیا، ’جانِ من! تمہیں اتنا موقع ملا تھا تو سنہری مچھلی سے تھوڑی سی صلاحیت کیوں نہ مانگ لی؟
تب شاعر کو احساس ہوا کہ اس کی زندگی میں کوئی کمی رہ گئی تھی۔ وہ بھاگتا ہوا سمندر کے کنارے پہنچا اور چیخ کر کہنے لگا، سنہری مچھلی، سنہری مچھلی! مجھے تھوڑی سی صلاحیت دے دو۔ 
سنہری مچھلی نے یہ سن کر جواب دیا۔’تم جو مانگو میں دے سکتی ہوں لیکن شاعری کی صلاحیت ایک ایسی چیز ہے جو میں نہیں دے سکتی۔ صلاحیت کوئی دے سکتا ہے نہ چھین سکتا ہے۔ یہ تو ماں کے پیٹ سے لے کر آنا پڑتی ہے۔‘ 
 یہ ایک حکایت ہے۔ فرضی کہانی، فیری ٹیل، حقیقت سے دُور مگر اس میں ایک سبق پوشیدہ ہے۔ رسول حمزہ توف نے تو یہ قدیم حکایت ادبی حوالے سے لکھی۔
لیکن میرا ماننا ہے کہ صرف صلاحیت ہی نہیں بلکہ جرات، دلیری اور اپنے اُصولوں پر ڈٹ جانے کا جذبہ بھی مانگا نہیں جا سکتا۔ یہ آدمی کے اندر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ کوئی دکھاوے کا انقلابی یا مزاحمتی بننے کی کوشش کرے یا دلیری کے کھوکھلے دعوے، وقت اسے جھوٹا ثابت کر دیتا ہے۔

اپنے آخری انٹرویو میں بھی نوابزادہ نصراللہ نے پرویز مشرف پر تنقید کی اور ایل ایف او کو غیر جمہوری کہا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستانی سیاست میں اچھے جگمگاتے کردار کئی ہیں، ایک سیاست دان ایسا ہے جس کے بارے میں ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک سچا اور حقیقی جمہوریت پسند تھا۔ جس نے جرات، دلیری اور عزم و ہمت سے معمور زندگی گزاری۔ پاکستان کا کوئی بھی فوجی آمر اسے خریدنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ 
وہ ہمیشہ ڈٹ کر کھڑا ہوا اور اپنی بات کہتا رہا۔ آج 27 ستمبر کو اسی بڑے شخص کی برسی ہے، جس کی موت پر قوم نے اسے ’بابائے جمہوریت‘ کہا اور وقت نے اس پر مہر ثبت کر دی۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان۔
نوابزادہ نصراللہ خان کی شخصیت میں بعض دلچسپ تضادات بھی تھے، انہوں نے مگر اِن سے اُوپر اٹھنے کی کوشش کی۔ وہ مظفر گڑھ کے ایک روایتی زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، سرائیکی بولنے والی پٹھان فیملی۔
اشرافیہ کے تعلیمی ادارے ایچی سن کالج میں پڑھے، مگر جاگیرداروں کی روایتی جماعت یونینسٹ پارٹی میں شامل ہونے کے بجائے تب کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ، اینٹی انگریز جماعت مجلسِ احرار کا انتخاب کیا۔ 
وہ احرار کی پاکستان مخالف سیاست کے ساتھ چلے، 1946 کا انتخاب بھی مسلم لیگ کے خلاف لڑا اور ہار گئے۔ پاکستان بننے کے بعد نواب زادہ نصراللہ خان نے پاکستان کو تسلیم کیا اور پھر زندگی کی آخری سانس تک ایک پاکستانی نیشنلسٹ کے طور پر زندگی گزاری۔ کبھی علیحدگی پسندوں کے ساتھ نہیں ملے بلکہ انہیں کھینچ کر وفاق کی سیاست کی طرف لے آتے۔

پرویز مشرف کے خلاف پی پی پی اور ن لیگ اکٹھی ہوگئیں، تاہم نواز شریف کے اچانک باہر جانے سے نوابزادہ مایوس ہوگئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

قیام پاکستان کے بعد وہ ابتدائی سال مسلم لیگ میں رہے، پھر حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ کا حصہ بنے۔ شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات پر پارٹی چھوڑ دی۔ بعد میں اپنی ایک جماعت بنائی جو عددی اعتبار سے اتنی مختصر تھی کہ سیاسی مخالف تانگہ پارٹی کی پھبتی کستے۔
نوابزادہ نصراللہ مگر ون مین آرمی تھے۔ چند افراد کی جماعت کے سربراہ مگر ہمیشہ اپوزیشن کے مرکزی رہنما سمجھے جاتے۔ ہر اپوزیشن اتحاد کے وہ رُوحِ رواں رہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق وہ تاریخ کے درست مقام پر رہے۔
ایوب خان کے دور میں انہوں نے ڈٹ کر اپوزیشن کی سیاست کی، مادرِ ملت فاطمہ جناح کی انتخابی مہم بھرپور انداز سے چلائی۔
سنہ 1967 میں ایوب خان کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ بنا تو نوابزادہ نصراللہ اس کے صدر تھے، انہی کے مطالبے پر ایوب خان کو اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار شیخ مجیب الرحمان کو رہا کرنا پڑا۔
بھٹو صاحب کے خلاف بھی نوابزادہ اپوزیش کے مرکزی رہنماؤں میں تھے۔ 1977 میں بھٹو کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد پی این اے ہو یا پھر ضیا کے مارشل لا کے خلاف اپوزیشن سیاسی اتحاد ایم آر ڈی یا پھر برسوں بعد پرویز مشرف کے مارشل لاکے خلاف بننے والا اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی، ان سب کا بنیادی محرک اور محور نوابزادہ نصراللہ خان کی شخصیت تھی۔ ان کے بغیر یہ اتحاد نہ بن پاتے اور نہ چل سکتے۔
پی این اے میں جماعت اسلامی اور ان کے شدید مخالف ولی خان کی جماعت، اصغر خان، پیر پگاڑا اور مولانا نورانی وغیرہ کو اکٹھا کرنے والے نوابزادہ نصراللہ ہی تھے۔ 

 نوابزادہ نصراللہ کو پیپلز پارٹی نے صدارتی امیدوار نہیں بنایا جس سے انہیں بڑا دھچکہ لگا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ واقعہ تو بہت مشہور ہے کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد جب اپوزیشن کے اتحاد ایم آرڈی کا پہلا اجلاس بلایا گیا تو پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو وہاں بیٹھے شدید بھٹو مخالف ایئر مارشل اصغر خان کو دیکھ کر برہم ہوگئیں اور کمرے سے باہر چلی گئیں۔ 
نوابزادہ نصراللہ اُن کے پاس گئے، چند منٹ گفتگو کی اور انہیں کمرے میں لے آئے، پھر اصغر خان کو باہر لے گئے، ان سے گفتگو کی اور واپس لے آئے۔ نوابزادہ نے نجانے کیا جادو کیا کہ دونوں اس کے بعد خاموش ہوگئے اور ایم آرڈی کی سیاسی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔
اے آرڈی کا بنانا بھی ایک حیران کن کام تھا۔ 90 کے عشرے میں ایک دوسرے سے برسرِپیکار میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پارٹیوں کو ایک اتحاد میں اکٹھا کرنا بظاہر ناممکن لگ رہا تھا۔ 
نوابزادہ نے ایسا کر دکھایا۔ مشرف کے خلاف پی پی پی اور ن لیگ اکٹھی ہوگئیں۔ اگرچہ بعد میں میاں نواز شریف کے اچانک باہر چلے جانے سے نوابزادہ مایوس ہوئے تھے۔
نوابزادہ نصراللہ خان کو پیپلز پارٹی کی جانب سے ایک بڑا دھچکہ تب لگا جب پی پی پی نے انہیں صدارتی امیدوار نہیں بنایا۔ 1988 کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور صدر کا انتخاب ہوا تو نوابزادہ صدارتی امیدوار بنے۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ پیپلز پارٹی نوابزادہ نصراللہ خان کو ایوارڈ دے کر اپنی سوفٹ امیج بلڈنگ کرنا چاہ رہی ہو؟ (فائل فوٹو: اے پی پی)

انہیں امید تھی کہ ایم آر ڈی کے دنوں کی ساتھی بے نظیر بھٹو ان کا ساتھ دیں گی۔ نوابزادہ کو شدید مایوسی ہوئی جب پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کرتے ہوئے غلام اسحاق خان کی حمایت کا فیصلہ کیا اور نوابزادہ کو بھی دستبردار ہونے کا کہا۔
نصراللہ خان مگر ڈٹے رہے، الیکشن لڑے گو ہار گئے، تاہم بی بی کی اگلی وزارت عظمٰی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کی ناراضی ختم ہوگئی۔ پیپلز پارٹی نے انہیں قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنا دیا۔ ان کا صاحبزادہ پنجاب میں صوبائی وزیر بھی بنا۔
پاکستان کے ایک سابق سفیر کرامت علی غوری نے اپنی کتاب روزگار سفیر میں لکھا کہ جب وہ کویت میں سفیر تھے تو انہیں وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کا پیغام ملا کہ ان کے ایک قابل اعتماد قریبی ساتھی کویت آرہے ہیں ان کا خیال رکھا جائے۔ 
وہ مہمان نوابزادہ نصراللہ خان تھے۔ کرامت غوری اگرچہ اس دورے میں نوابزادہ نصراللہ کے رویے کے شاکی رہے اور انہوں نے اپنی کتاب میں تنقیدی فقرے بھی لکھے، مگر اس واقعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ بے نظیر بھٹو دل سے نوابزادہ نصراللہ کا احترام کرتی تھیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب 2002 کے الیکشنز کے بعد ڈیڈلاک پیدا ہوا تو نوابزادہ نصراللہ خان نے کوشش کی کہ پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کی مخلوط حکومت بن جائے اور پرویز مشرف کی حمایت یافتہ ق لیگ کو اقتدار سے باہر رکھا جائے۔

 سنہ 1967 میں ایوب خان کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ بنا تو نوابزادہ نصراللہ اس کے صدر تھے (فائل فوٹو: فلِکر)

مولانا فضل الرحمان کے قریبی حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک فارمولہ بن بھی گیا تھا، مگر پیپلز پارٹی پیچھے ہٹ گئی اور مخدوم امین فہیم جواب لے کر نوابزادہ کے پاس واپس نہ آئے۔ آخر ق لیگ اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کی حکومت بنی اور ایم ایم اے نے ایل ایف او کی منظوری میں حکومت کا ساتھ دیا۔
 نوابزادہ نصراللہ ایل ایف او کے شدید مخالف تھے، اپنی خرابی صحت کے باوجود وہ اس پر تنقید کرتے رہے۔ بیماری کے دنوں میں اپنے آخری انٹرویو میں بھی انہوں نے پرویز مشرف پر تنقید کی اور ایل ایف او کو غیر جمہوری کہا۔ وقت نے انہیں مہلت نہ دی، ورنہ ممکن ہے وہ ایک اور اپوزیشن اتحاد کھڑا کر دیتے۔
 نوابزادہ نصراللہ خان کی برسی کے حوالے سے صدر پاکستان آصف زرداری نے انہیں نشانِ امتیاز دینے کی سفارش کی ہے۔ یہ بہت مثبت اور دل خوش کن اقدام ہے، اسے سراہنا چاہیے۔ اس کی ٹائمنگ البتہ دلچسپ ہے اور بعض سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہی کہ جناب صدر کو اس کا خیال اتنی دیر سے کیوں آیا؟
نوابزادہ کے انتقال کے وقت پرویز مشرف حکومت تھی، ان کے بعد پیپلز پارٹی پانچ برس تک حکومت میں رہی، آصف زرداری صدر پاکستان اور سیاسی طاقت کا مرکز تھے۔ پانچ برسوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سینکڑوں بلکہ شاید ایک ہزار کے لگ بھگ سرکاری ایوارڈز ریوڑیوں کی طرح بانٹے۔
پیپلز پارٹی سندھ کے صوبائی وزرا تک کو ایوارڈز مل گئے۔ حیرت ہے تب کسی کو نوابزادہ نصراللہ کا خیال نہ آیا؟ اس کے بعد اگلے پانچ برسوں میں ن لیگ کی حکومت تھی، مگر پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت تھی جبکہ پنجاب میں بھی شریک رہی۔ تب بھی کسی زرداری صاحب یا پیپلز پارٹی کے کسی رہنما کو یہ خیال نہ آیا۔

نوابزادہ نصراللہ کے مطالبے پر ہی ایوب خان کو اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار شیخ مجیب الرحمان کو رہا کرنا پڑا (فائل فوٹو: فلِکر)

عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد 16 ماہ تک پی ڈی ایم کی حکومت رہی جس میں بلاول بھٹو وزیر خارجہ تھے، پی پی کے کئی دیگر وزرا بھی کابینہ میں شامل تھے۔ تب بھی خیال نہ آیا۔ حیرت در حیرت یہ کہ زرداری صاحب کو دوبارہ صدر بنے ہوئے پانچ چھ ماہ ہوچکے۔
رواں سال کے سول ایوارڈز کا اعلان 14 اگست کو ہوا۔ سفارشات مئی جون میں چلی جاتی ہیں، لیکن صدر کی سطح پر سفارش ہو تو آخری دنوں میں بھی نام ڈالا جا سکتا ہے۔ اگر جنابِ صدر اشارہ بھی کر دیتے تو نوابزادہ نصراللہ خان کو سول ایوارڈ ینے کا اعلان تب ہی ہوجاتا۔
یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اب اچانک یہ دریا دلی اور قدر شناسی کیسے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حالیہ عدلیہ حکومت تصادم، آئینی عدالت وغیرہ کے ہنگام پیپلز پارٹی بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کو ایوارڈ دے کر اپنی سوفٹ امیج بلڈنگ کرنا چاہ رہی ہو؟
بہرحال وجہ جو بھی ہو، نوابزادہ نصراللہ خان ہمارے سیاست دانوں میں ایک بہت ممتاز، منفرد اور سربلند شخصیت تھے۔ وہ بابائے جمہوریت کہلانے کے بھی حق دار ہیں اور انہیں نشانِ امتیاز دیا جانا درحقیقت اس اعزاز کی بھی توقیر ہے۔ صدر زرداری نے بہت تاخیر سے سہی، مگر ایک درست قدم اٹھایا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی رُوح کو یقیناً اس سے آسودگی اور طمانیت ملی ہوگی۔

شیئر: