Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک انصاف کو وِش فُل سوچ کے بجائے عملیت پسندی کی ضرورت: عامر خاکوانی کا کالم

’محمود اچکزئی کو آگے کر کے ہی سہی حکومتی اتحاد سے مذاکرات کا ڈول ڈالا جائے۔’ (فوٹو: اے ایف پی)
 عمران خان کی سیاست خاص کر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ان کے سیاسی فیصلوں اور حکمت عملی پر طویل بحث ہو سکتی ہے۔ یہ البتہ حقیقت ہے کہ سیاست کا حقیقی لٹمس ٹیسٹ جس سے کامیابی یا ناکامی کا پتہ چلے، وہ عام انتخابات ہیں۔
کوئی سیاسی جماعت خواہ کتنی مقبولیت کے دعوے کرے، اصل کسوٹی ووٹر ہیں، اگر ووٹرز نے اسے قبول کر لیا تو وہ کامیاب، ریجیکٹ کر دیا تو ناکام۔
 تحریک انصاف کے دو تہائی اکثریت والے دعوﺅں کو ایک طرف رکھ دیں، تب بھی بغیر انتخابی نشان، بغیر انتخابی مہم چلائے اس نے سب سے زیادہ نشستیں اور ووٹ لیے، سوال مگر یہ ہے کہ عمران خان کو اس کے ثمرات کیوں نہیں مل پا رہے؟
دیگر وجوہات کے علاوہ عمران خان کو اپنے اینڈ پر بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسا کیا کریں جس سے ان کی مشکلات میں کمی آئے۔ میرے خیال میں عمران خان کو اب چار بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، اپنی انا، ہچکچاہٹ اور غصے کو ایک طرف رکھتے ہوئے بنیادی فیصلے۔
 نو مئی کے سائے سے نکلیں
 پچھلے 10، 15 برسوں کے دوران نو مئی 2023 تحریک انصاف کی سیاست کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ اور تکلیف دہ دن ثابت ہوا ہے۔ پارٹی سٹرکچر، رہنماﺅں اور کارکنوں کو شدید دھچکا پہنچا۔ نو مئی کے بعد سے تحریک انصاف اپوزیشن کی روایتی احتجاجی سیاست کر ہی نہیں پائی۔ اس کی تمام تر جدوجہد عدالتوں یا کسی حد تک سوشل میڈیا تک محدود رہی ہے۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو نرم رویہ اپنانے پر آمادہ کیا جائے (فوٹو: سکرین گریب)

 وقت آ گیا ہے کہ خان صاحب اس دن کے سائے سے نجات پائیں، موو آن کریں۔ ان سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ وہ نومئی پر معافی مانگیں۔
خان صاحب کو اس حوالے سے کوئی نیا اور مقتدر حلقوں کے لیے قابل قبول بیانیہ بنانا ہو گا۔ وہ اپنی مرضی سے الفاظ کا چناﺅ کر سکتے ہیں، مگر ایک بار واضح طور سے نو مئی کے دن جو کچھ ہوا اس پر اظہار افسوس، لاتعلقی اور عسکری مقامات کے باہر سیاسی احتجاج کرنے کا بھی جو اقدام کیا گیا تھا، اس پر معذرت کر کے آگے بڑھنے کی بات کرنی چاہیے۔
  وہ کم از کم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ’اس دن جو کچھ ہوا غلط تھا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم بطور جماعت یہ تہیہ کر چکے ہیں کہ آئندہ ایسا کو ئی موقع نہ بنایا جائے جس سے شرپسند فائدہ اٹھا سکیں، وغیرہ وغیرہ۔‘
 ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس وقت سب سے بڑا بیریئر یہی ہے۔ خان صاحب موو آن کرنا چاہ رہے ہیں مگریہ بات کلیئر ہے کہ جب تک وہ نو مئی کے حوالے سے اپنے حالیہ موقف پر نظرثانی کرتے ہوئے کوئی معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپنائیں گے، ان کے لیے دروازے نہیں کھلیں گے۔
 اندازہ ہے کہ تحریک انصاف کے حامیوں میں بہت زیادہ جذباتیت ہے اور ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کسی سافٹ سی معذرت کو بھی اپنی شکست گردانیں گے۔ عمران خان کو مگر اس خیال پر غور تو کرنا چاہیے۔ کئی بار سیاست میں ایسا موقف لے لیا جاتا ہے جس پر بعد میں پچھتاوا محسوس ہوتا ہے کہ کاش تب ایسا کر لیتے تو اچھا ہوجاتا۔ کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑنا تھا وغیرہ۔ نومئی کو بھی اسی تناظر میں دیکھیں۔

’پی ٹی آئی نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحفظ آئین تحریک میں اختر مینگل اور محمود اچکزئی کا ساتھ حاصل کیا (فوٹو: اے ایف پی)

 سولو فلائیٹ چھوڑیں، نئے اتحادی بنائیں
 عمران خان نے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹنے کے بعد سولوفلائٹ کی سیاست اپنائی، اس کا نقصان ہوا کہ مشکل وقت میں کوئی دوسرا ساتھ نہیں کھڑا ہوا۔
خان صاحب نے سندھ اور بلوچستان میں اپنے اتحادی نہیں ڈھونڈے۔ وہ اپنے اپوزیشن جلسوں میں جی ڈی اے کے لیڈروں پیر صدرالدین راشدی، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، سائرہ بانو وغیرہ کو مدعو کر سکتے تھے۔ وہ ان کے وفادار اتحادی رہے اور تحریک عدم اعتماد میں بھی ثابت قدم رہے۔ اسی طرح عمران خان اگر بلوچستان جاتے تو وہ بلوچ پشتون قوم پرستوں کے ساتھ سیاسی انڈرسٹینڈنگ پیدا کر سکتے تھے کیونکہ ان کا حالیہ موقف بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے خاصا قریب تھا۔ سیاسی جماعتیں نہ سہی عوامی سطح پر تو وہ اپنی پاکٹس بنا سکتے تھے۔
 تحریک انصاف کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر چلی تھی، بہتر ہوتا کہ کم از کم کراچی کی سطح پر جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی جاتی۔ کم از کم حافظ نعیم کی سیٹ پر ہی تحریک انصاف اپنا امیدوار دستبردار کرا لیتی تو دونوں جماعتوں میں ایک گونہ قربت پیدا ہوجاتی۔ جماعت اسلامی آج کل اتحادی سیاست کے موڈ میں نہیں، مگر اس کے ساتھ مشترک نکات پر قریبی تعلق رکھنا چاہیے ۔جماعت کے دھرنے کے حق میں عمران خان کا بیان اچھی موو تھی۔
 تحریک انصاف کو اب آگے بڑھنے کے لیے ایک بڑا اپوزیشن اتحاد بنانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحفظ آئین تحریک کی صورت میں محمودخان اچکزئی اور اختر مینگل کا ساتھ حاصل کیا ہے۔ اب مولانا فضل الرحمان کے ساتھ معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماﺅں کو مولانا کے خلاف بیانات دینے سے روکا جائے۔

عمران خان کو نو مئی پر معذرت کر کے آگے بڑھنے کی بات کرنی چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعلیٰ کے پی کو نرم رویہ اپنانے پر آمادہ کیا جائے اور اگر جے یوآئی کو کے پی اسمبلی سے سینیٹ کی دو سیٹیں دینا پڑیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بہتر ہوگا کہ ماضی کو بھلا کر جمہوریت ، آئین اور ملک کی خاطر اکھٹے چلنے کی امیدافزا بات کی جائے۔
 اپنے مخالفوں کو تقسیم کریں
 یہ وہ مشورہ ہے جو پیر مردان شاہ پگاڑا مرحوم نے پیپلزپارٹی کے بعض رہنماﺅں کو 1991-92 میں دیا تھا۔ تب بے نظیر بھٹو نے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف دونوں کو بیک وقت اپنے نشانے پر لیا ہوا تھا، تند وتیز بیانات چل رہے تھے۔
پیر صاحب نے اپنے کسی شناسا پی پی رہنما کے ذریعے بی بی کو پیغام بھجوایا کہ اپنے مخالفوں کو الگ الگ کر دیں۔ دونوں پر حملے کریں گی تو وہ متحد ہوں گے۔ اس کے بجائے ایک کو ہدف بنائیں، دوسرے کے ساتھ معاملات بہتر بنائیں۔
 بے نظیر بھٹو نے پھر ایسا ہی کیا۔ غلام اسحاق خان کے ساتھ رابطے قائم کیے گئے جبکہ میاں نواز شریف کے خلاف محاذ گرم رہا۔ بعد میں جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ روئیداد خان نے اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں اس سیاسی ’آپریشن مین ہٹن‘ کی تفصیل بیان کی ہے جس میں افضل خان نے اہم کردار ادا کیا اور جس کے بعد نواز شریف اسمبلی برخاست ہوئی اور نگران کابینہ میں آصف زرداری بھی وزیر بنے۔
 عمران خان کو بھی ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں امتیاز کرنا چاہیے ۔ پی پی پی کے ساتھ ان کی براہ راست لڑائی نہیں۔ تحریک انصاف کا اصل میدان پنجاب اور کے پی ہیں جہاں پیپلزپارٹی کی پانچ سات فیصد سے زیادہ نمائندگی نہیں۔

بے نظیر بھٹو نے پیر مردان شاہ پگاڑا کے مشورے پر اپنے مخالفین کو تقسیم کیا (فوٹو: اے ایف پی)

خان صاحب اگر الیکشن کے فوری بعد پی پی پی کے ساتھ مل کر چلنے کا فیصلہ کر لیتے تو شاید آج سیاسی نقشہ ہی تبدیل ہوتا۔ انہیں اس بحران سے نکالنے میں پیپلز پارٹی اگر کام آ سکتی ہے تو اس چینل کو ضرور آزمانا چاہیے۔ کم از کم یہ تو کر سکتے ہیں کہ دو مخالفوں میں سے ایک پر پنجابی محاورے کے مطابق ہولا ہاتھ رکھیں۔
 زمینی حقائق اچانک تبدیل نہیں ہوں گے
 تحریک انصاف کے بہت سے ’کی بورڈ واریئرز‘ یہ سمجھتے اور یقین رکھتے ہیں کہ عمران خان کو اپنی لڑائی مسلسل جاری رکھنی چاہیے، حتیٰ کہ مقتدر قوتیں پسپا ہو جائیں۔یہ وش فل تھنکنگ تو ہوسکتی ہے، مگر عملیت پسندی نہیں۔
 پاکستان کے اپنے معروضی حالات ہیں۔ یہ بنگلہ دیش نہیں اور نہ ہی افغانستان کہ یکایک سب کچھ الٹ جائے گا۔ خان صاحب کو جذباتی ہوئے بغیر عملیت پسندانہ پالیسی اپنانی چاہیے۔ بہت کچھ دیکھ بھال کر، اچھی طرح کیلکولیٹ کر کے آگے بڑھیں۔ آئیڈیل سطح پر جو ہونا چاہیے وہ نہیں ہے۔ ممکن ہے جلد ہو بھی نہ پائے۔
 ایسے میں عمران خان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ جو کارڈز ان کے پاس ہیں، انہی سے کھیلیں، اچھی چالیں چلیں اور پہلے جس گڑھے میں پارٹی پھنسی ہوئی ہے، اس سے باہر نکلیں۔ خود بھی باہر آئیں، اپنے ساتھیوں کو بھی رہائی دلوائیں اور سیاست کے ذریعے نئی کامیابیاں حاصل کریں۔
 مخالف سیاسی جماعتوں سے مذاکرات نہ کرنے والی بات غیر جمہوری اور کمزور ہے۔ عمران خان کا یہ بیانیہ کمزور ہے کہ جنہوں نے میرا مینڈیٹ لے کر حکومت بنائی ہے،ان سے کیوں بات کروں؟ جنہوں نے مینڈیٹ چھینا ہے، ان سے بات کرنے کو تیار ہیں تو جنہیں مینڈیٹ سونپا گیا ہے، ان سے بات کرنے میں کیا حرج ہے؟
 دوسرا یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ براہ راست اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں کیا حرج ہے کہ محمود اچکزئی کو آگے کر کے ہی سہی حکومتی اتحاد سے مذاکرات کا ڈول ڈالا جائے۔
خان صاحب کہہ سکتے ہیں کہ میں ان کے مینڈیٹ کو نہیں مانتا، ان سے شدید اختلاف ہے، مگر جمہوریت اور ملک کی خاطر ہم حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ مذاکرات کی ٹیبل پر وہ بہت کچھ اپنے لیے منوا سکتے ہیں۔ دوبارہ گنتی کی صورت میں نشستیں کم ہونا ہی رک جائے ، اسیر رہنماﺅں اور کارکنوں کے لیے آسانی پیدا ہو۔

شیئر: