عمران خان کی سیاست خاص کر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ان کے سیاسی فیصلوں اور حکمت عملی پر طویل بحث ہو سکتی ہے۔ یہ البتہ حقیقت ہے کہ سیاست کا حقیقی لٹمس ٹیسٹ جس سے کامیابی یا ناکامی کا پتہ چلے، وہ عام انتخابات ہیں۔
کوئی سیاسی جماعت خواہ کتنی مقبولیت کے دعوے کرے، اصل کسوٹی ووٹر ہیں، اگر ووٹرز نے اسے قبول کر لیا تو وہ کامیاب، ریجیکٹ کر دیا تو ناکام۔
تحریک انصاف کے دو تہائی اکثریت والے دعوﺅں کو ایک طرف رکھ دیں، تب بھی بغیر انتخابی نشان، بغیر انتخابی مہم چلائے اس نے سب سے زیادہ نشستیں اور ووٹ لیے، سوال مگر یہ ہے کہ عمران خان کو اس کے ثمرات کیوں نہیں مل پا رہے؟
مزید پڑھیں
-
نظر آتی ہی نہیں صورتِ حالات کوئی، عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 855441
دیگر وجوہات کے علاوہ عمران خان کو اپنے اینڈ پر بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسا کیا کریں جس سے ان کی مشکلات میں کمی آئے۔ میرے خیال میں عمران خان کو اب چار بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، اپنی انا، ہچکچاہٹ اور غصے کو ایک طرف رکھتے ہوئے بنیادی فیصلے۔
نو مئی کے سائے سے نکلیں
پچھلے 10، 15 برسوں کے دوران نو مئی 2023 تحریک انصاف کی سیاست کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ اور تکلیف دہ دن ثابت ہوا ہے۔ پارٹی سٹرکچر، رہنماﺅں اور کارکنوں کو شدید دھچکا پہنچا۔ نو مئی کے بعد سے تحریک انصاف اپوزیشن کی روایتی احتجاجی سیاست کر ہی نہیں پائی۔ اس کی تمام تر جدوجہد عدالتوں یا کسی حد تک سوشل میڈیا تک محدود رہی ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ خان صاحب اس دن کے سائے سے نجات پائیں، موو آن کریں۔ ان سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ وہ نومئی پر معافی مانگیں۔
خان صاحب کو اس حوالے سے کوئی نیا اور مقتدر حلقوں کے لیے قابل قبول بیانیہ بنانا ہو گا۔ وہ اپنی مرضی سے الفاظ کا چناﺅ کر سکتے ہیں، مگر ایک بار واضح طور سے نو مئی کے دن جو کچھ ہوا اس پر اظہار افسوس، لاتعلقی اور عسکری مقامات کے باہر سیاسی احتجاج کرنے کا بھی جو اقدام کیا گیا تھا، اس پر معذرت کر کے آگے بڑھنے کی بات کرنی چاہیے۔
وہ کم از کم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ’اس دن جو کچھ ہوا غلط تھا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم بطور جماعت یہ تہیہ کر چکے ہیں کہ آئندہ ایسا کو ئی موقع نہ بنایا جائے جس سے شرپسند فائدہ اٹھا سکیں، وغیرہ وغیرہ۔‘
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس وقت سب سے بڑا بیریئر یہی ہے۔ خان صاحب موو آن کرنا چاہ رہے ہیں مگریہ بات کلیئر ہے کہ جب تک وہ نو مئی کے حوالے سے اپنے حالیہ موقف پر نظرثانی کرتے ہوئے کوئی معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپنائیں گے، ان کے لیے دروازے نہیں کھلیں گے۔
اندازہ ہے کہ تحریک انصاف کے حامیوں میں بہت زیادہ جذباتیت ہے اور ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کسی سافٹ سی معذرت کو بھی اپنی شکست گردانیں گے۔ عمران خان کو مگر اس خیال پر غور تو کرنا چاہیے۔ کئی بار سیاست میں ایسا موقف لے لیا جاتا ہے جس پر بعد میں پچھتاوا محسوس ہوتا ہے کہ کاش تب ایسا کر لیتے تو اچھا ہوجاتا۔ کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑنا تھا وغیرہ۔ نومئی کو بھی اسی تناظر میں دیکھیں۔

سولو فلائیٹ چھوڑیں، نئے اتحادی بنائیں
عمران خان نے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹنے کے بعد سولوفلائٹ کی سیاست اپنائی، اس کا نقصان ہوا کہ مشکل وقت میں کوئی دوسرا ساتھ نہیں کھڑا ہوا۔
خان صاحب نے سندھ اور بلوچستان میں اپنے اتحادی نہیں ڈھونڈے۔ وہ اپنے اپوزیشن جلسوں میں جی ڈی اے کے لیڈروں پیر صدرالدین راشدی، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، سائرہ بانو وغیرہ کو مدعو کر سکتے تھے۔ وہ ان کے وفادار اتحادی رہے اور تحریک عدم اعتماد میں بھی ثابت قدم رہے۔ اسی طرح عمران خان اگر بلوچستان جاتے تو وہ بلوچ پشتون قوم پرستوں کے ساتھ سیاسی انڈرسٹینڈنگ پیدا کر سکتے تھے کیونکہ ان کا حالیہ موقف بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے خاصا قریب تھا۔ سیاسی جماعتیں نہ سہی عوامی سطح پر تو وہ اپنی پاکٹس بنا سکتے تھے۔
تحریک انصاف کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر چلی تھی، بہتر ہوتا کہ کم از کم کراچی کی سطح پر جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی جاتی۔ کم از کم حافظ نعیم کی سیٹ پر ہی تحریک انصاف اپنا امیدوار دستبردار کرا لیتی تو دونوں جماعتوں میں ایک گونہ قربت پیدا ہوجاتی۔ جماعت اسلامی آج کل اتحادی سیاست کے موڈ میں نہیں، مگر اس کے ساتھ مشترک نکات پر قریبی تعلق رکھنا چاہیے ۔جماعت کے دھرنے کے حق میں عمران خان کا بیان اچھی موو تھی۔
تحریک انصاف کو اب آگے بڑھنے کے لیے ایک بڑا اپوزیشن اتحاد بنانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحفظ آئین تحریک کی صورت میں محمودخان اچکزئی اور اختر مینگل کا ساتھ حاصل کیا ہے۔ اب مولانا فضل الرحمان کے ساتھ معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماﺅں کو مولانا کے خلاف بیانات دینے سے روکا جائے۔

وزیراعلیٰ کے پی کو نرم رویہ اپنانے پر آمادہ کیا جائے اور اگر جے یوآئی کو کے پی اسمبلی سے سینیٹ کی دو سیٹیں دینا پڑیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بہتر ہوگا کہ ماضی کو بھلا کر جمہوریت ، آئین اور ملک کی خاطر اکھٹے چلنے کی امیدافزا بات کی جائے۔
اپنے مخالفوں کو تقسیم کریں
یہ وہ مشورہ ہے جو پیر مردان شاہ پگاڑا مرحوم نے پیپلزپارٹی کے بعض رہنماﺅں کو 1991-92 میں دیا تھا۔ تب بے نظیر بھٹو نے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف دونوں کو بیک وقت اپنے نشانے پر لیا ہوا تھا، تند وتیز بیانات چل رہے تھے۔
پیر صاحب نے اپنے کسی شناسا پی پی رہنما کے ذریعے بی بی کو پیغام بھجوایا کہ اپنے مخالفوں کو الگ الگ کر دیں۔ دونوں پر حملے کریں گی تو وہ متحد ہوں گے۔ اس کے بجائے ایک کو ہدف بنائیں، دوسرے کے ساتھ معاملات بہتر بنائیں۔
بے نظیر بھٹو نے پھر ایسا ہی کیا۔ غلام اسحاق خان کے ساتھ رابطے قائم کیے گئے جبکہ میاں نواز شریف کے خلاف محاذ گرم رہا۔ بعد میں جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ روئیداد خان نے اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں اس سیاسی ’آپریشن مین ہٹن‘ کی تفصیل بیان کی ہے جس میں افضل خان نے اہم کردار ادا کیا اور جس کے بعد نواز شریف اسمبلی برخاست ہوئی اور نگران کابینہ میں آصف زرداری بھی وزیر بنے۔
عمران خان کو بھی ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں امتیاز کرنا چاہیے ۔ پی پی پی کے ساتھ ان کی براہ راست لڑائی نہیں۔ تحریک انصاف کا اصل میدان پنجاب اور کے پی ہیں جہاں پیپلزپارٹی کی پانچ سات فیصد سے زیادہ نمائندگی نہیں۔
