Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 بالی وڈ اداکارہ تمنا بھاٹیہ کے حیران کر دینے والے دلچسپ مشورے، عامر خاکوانی کا کالم

تمنا بھاٹیہ نے ’بیک ٹو دا روٹس‘ کے نام سے اپنی کتاب لانچ کی تھی۔ فوٹو: انسٹا تمنا بھاٹیہ
پچھلے دنوں یہ بات سوچتا رہا کہ ہماری فلم انڈسٹری گئی گزری سہی مگر ٹی وی نے بڑے بڑے فن کار پیدا کیے۔ اچھے گھرانوں کے اعلیٰ یافتہ لوگ ڈراموں میں آئے اور نام بنایا۔ ان میں سے کسی کو کتاب لکھنے کا خیال کیوں نہیں آیا؟
مرد اداکار ہوں یا خواتین سب کا یہی وتیرہ رہا۔ مجھے صرف پی ٹی وی کی ممتاز اداکارہ عظمیٰ گیلانی کی بائیوگرافی یاد ہے جو چند سال قبل شائع ہوئی۔ اینکر جگن کاظم نے اپنے بچے کی پیدائش کے بعد پیرنٹنگ پر اچھی دلچسپ کتاب لکھی اور بس۔ 
بالی وڈ کا معاملہ یکسر مختلف ہے، وہاں بیشتر سپرسٹارز پر کتابیں تو بہت لکھی گئیں لیکن ان میں سے بہت سوں نے خود بھی لکھیں۔ ظاہر ہے کسی مصنف کی مدد سے ایسا ہوا مگر بہرحال وہ اسے اون کرتے ہیں۔ ایسی ایک طویل فہرست ہے۔
پچھلی بار میں نے رام گوپال ورما کی کتاب کا تعارف اور اقتباسات شیئر کیے تھے۔ اگلے روز باہو بلی فلم کی ہیروئن اور بالی وڈ کی معروف اداکارہ تمنا بھاٹیہ کی بہت دلچسپ کتاب مل گئی، ’بیک ٹو دا روٹس‘ یعنی ’اپنی جڑوں یا ماضی کی طرف واپسی۔‘
تمنا بھاٹیہ نے یہ کتاب ایک مشہور ٹرینر اور ڈائیٹ، فٹنس گرو لیوک کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔ یہ کتاب اس لیے بہت دلچسپ ہے کہ اس میں متعدد پرانے مشرقی، انڈین طور طریقوں، ٹوٹکوں اور عادات کی سائنسی تعبیر و تشریح کی گئی۔
بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو پاکستان اور انڈیا میں مشترک ہیں، اسی اعتبار سے وہ ہمارے لیے بھی دلچسپ ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ تمنا بھاٹیہ جو ایک ماڈرن ہیروئن ہیں، انہوں نے ٹریڈیشنل طور طریقوں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ اپنے ذاتی تجربات کے حوالے سے ان کی وکالت کی۔ ان کے شریک مصنف لیوک نے کتاب کے آخر میں کھچڑی بنانے کی بہت سی تراکیب بیان کی ہیں۔ 
دیباچے میں لیوک نے ایک دلچسپ بات بتائی کہ ’میں انڈین فوڈز اور مقامی پھلوں وغیرہ کا زبردست حامی ہوں مگر جو اچھی چیز باہر سے ملے اسے بھی لے لینا چاہیے۔ جیسے کیوی پھل جدید سائنسی ریسرچ کے مطابق ڈی این اے ریپیر کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، اس لیے ایسے لوگوں کو جن کی کینسر ٹریٹمنٹ چل رہی ہو، کیمو تھراپی یا ریڈی ایشن ہو رہی ہو، انہیں باقاعدگی سے کیوی کھانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔‘

تمنا بھاٹیہ نے مشہور ٹرینر گرو لیوک کے ساتھ مل کر کتاب لکھی ہے۔ فوٹو: انسٹا تمنا بھاٹیہ

تمنا بھاٹیہ کا بنیادی تھیسس ہے کہ برصغیر پاک وہند (تقسیم سے پہلے کا انڈیا) کے لوگ بہت سے کام روایتی طور پر یا عادتاً یا بطور احترام کرتے ہیں، انہیں اس کی وجہ معلوم نہیں مگر اس سب کے پیچھے سائنسی وجوہات ہیں۔ پرانے وقتوں میں جن دانا لوگوں نے انہیں رائج کیا، انہوں نے صحت اور انسانی بہتری کے تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے ایسا کیا۔ 
تمنا بھاٹیہ نے ایک دلچسپ مثال یہ دی کہ پہلے اکثر لوگ کنوئیں میں یا پانی پینے والے تالاب میں سکے پھینک دیا کرتے تھے، رسم یہ تھی کہ ایسا کرنے والا اس علاقے میں یا اس جگہ پر واپس آئے گا۔ اسی سے یہ جدید رسم نکلی اور آج کل کئی شہروں میں سیاح کسی مخصوص تالاب میں سکے پھینک رہے ہوتے ہیں۔ تمنا بھاٹیہ کے مطابق دراصل پہلے پرانے سکے تانبے (کاپر) کے بنے ہوتے تھے، کاپر کی خوبی ہے کہ وہ پانی سے مٹی کو نیچے بٹھا دیتا ہے اور آلودگی کم ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے یہ رواج نکالا، ان کی نیت تھی کہ کاپر کی وجہ سے کنوئیں یا تالاب کا پانی صحت کے اعتبار سے بہتر اور شفا بخش ہوجائے گا۔ بعد میں لوگ اگرچہ بغیر یہ جانے اور بغیر سوچے سمجھے رسم کے طور پر ایسا کرتے ہیں۔ 
وہ لکھتی ہیں کہ مجھے بہت سے طبی مسائل تھے، وزن کا بڑھتے رہنا، سکن کے ایشوز اورشوگر فری بوتل اور جوسز کی عادت وغیرہ۔ مختلف ڈائیٹ پلان لیتی رہی، مگر ہر بار وہی ہوتا ہے کہ چند دنوں بعد جیسے ہی پلان میں کچھ گڑبڑ ہوتی سب کچھ ریورس ہوجاتا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم ہر روز ایک جیسی چیز نہیں کھا سکتے یوں ہر ڈائیٹ پلان سے تنگ آ جاتے ہیں۔
پھر تمنا بھاٹیہ کی ملاقات ٹرینر لیوک سے ہوئی اور بقول تمنا ان کی زندگی بدل گئی۔ لیوک نے نہ صرف کولڈ ڈرنکس پینے کی عادت چھڑوا دی بلکہ ان کی زندگی اور صحت میں انقلاب برپا کر دیا۔
تمنا بھاٹیہ کے مطابق اصل بات اپنے لائف سٹائل کو درست کرنا ہے اور یہ بات بھی ہر کوئی لکھ یا کہہ دیتا ہے مگر بات سمجھ نہیں آتی۔ تمنا کے مطابق دراصل ہمیں انٹرمٹنٹ فاسٹنگ (12 گھنٹے کے فاقے) پر شفٹ ہونا چاہیے۔ فاسٹنگ فطرت کا طویل ترین، آزمودہ اور سب سے موثر طریقہ ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق صبح اٹھتے ساتھ چائے کے بجائے پانی پینا چاہیے۔ فوٹو: انسپلیش

انہوں نے مثال دی کہ اسلام کے علاوہ عیسائیت، بدھ ازم، ہندو ازم وغیرہ میں بھی مختلف انداز سے یہ موجود ہے۔ اس نے سائنسی توجیہہ یہ دی کہ ہر انسانی جسم دو فیز سے گزرتا ہے۔ جسم کی تعمیر یعنی بلڈنگ فیز اور پھر جسم کی اندر سے صفائی، سیلز کی ریپیرنگ کا عمل وغیرہ یعنی ایلمینیشن فیز۔
شام چھ سات بجے آخری کھانا کھا کر پھر اگلی صبح سات آٹھ بجے تک صرف سادہ پانی پیا جائے اور کچھ کھایا نہ جائے۔ چائے، گرین ٹی اور لیمن پانی وغیرہ بھی نہیں۔ اس سے جسم کے اندر کی بہت اچھے سے کلینزنگ، ڈی ٹاکسنگ وغیرہ ہوجائے گی۔
صبح ناشتے سے لے کر شام چھ سات بجے تک اچھا، صحت بخش کھانا پینا رکھیں۔ یہ صحت کی کلید ہے۔ تمنا کا مشورہ ہے کہ آپ ہفتے میں صرف ایک دن سے انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے آغاز کریں، اپنے آپ کو زیادہ مشقت میں نہ ڈالیں اور15 16 گھنٹے کے بجائے شروع میں صرف 12 گھنٹے رکھیں۔
تمنا بھاٹیہ کا دوسرا مشورہ ہے کہ نیچے بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ کرسی میز کے بجائے فرشی نشست جمائیں۔ آلتی پالتی مار کر بیٹھنا یوگا کا ایک آسن بھی ہے اور یہ جسم کو ریلیکس کرتا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کے نچلے حصے، ٹانگوں وغیرہ کو بھی سکون ملے گا۔ اس سے لبلبہ کا فعل بھی بہتر ہوتا اور قدرتی انسولین ریلیز ہوتی ہے۔
مصنفہ نے البتہ کمال مہربانی سے ان لوگوں کو یہ رعایت دی ہے جنہیں اپنے لباس یا کسی اور وجہ سے نیچے بیٹھنے میں مشکل ہے، وہ کرسی میز پر بیٹھ کر کھانا چاہتے ہیں تو ایسا ’کراس لیگ‘ پوزیشن میں کریں۔
کھانے کے بعد پانچ منٹ تک کراس لیگ پوسچر میں بیٹھے رہیں تاکہ ہاضمے میں مدد ملے۔ تمنا نے اپنی کتاب کے ہر چیپٹر میں قارئین کو کچھ تجاویز یا مشورہ بھی دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ابتدا میں دن کا صرف ایک کھانا فرشی نشست پر یا کراس لیگ پوزیشن میں کھائیں، پھر ہفتہ بعد اس روٹین کو بڑھائیں۔
تمنا بھاٹیہ کا اگلا مشورہ ہے کہ کھانا پرسکون حالت میں اپنے ہاتھ سے کھائیں، اس کے بہت سے فوائد ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ روایتی انڈین فوڈ (روٹی دال، سبزی، چاول وغیرہ) کو ہاتھ سے کھانا دراصل یوگا سے اخذ کیا گیا ہے اور یہ خوراک سے ہماری پانچوں حسیات کو کنیکٹ کرتی ہے، دیکھنا، سننا، سونگھا، چھونا اور ذائقہ جبکہ ایسا کرنا ہر قسم کی منفی وائبز کو صاف کر دیتا ہے۔

یوگا اور واک صحت کے لیے انتہائی مفید ورزشیں سمجھی جاتی ہیں۔ فوٹو: انسپلیش

جب ہم قدرے جھک کر ہاتھ سے نوالہ بناتے ہیں تو یہ بھی یوگا کا ایک طریقہ ہے، ہمارا خوراک سے ان کہا ڈائریکٹ کنیکشن قائم ہوجاتا ہے۔
انگلیوں سے کھانے والے کا منہ کبھی نہیں جلے گا جبکہ چمچ سے ایسا کئی بار ہو جاتا ہے۔ انگلیاں جب نوالہ بناتی ہیں تو وہ دماغ کو سینسر بھیجتی ہیں اور وہ ہضم کرنے والے جوسز ریلیز کرنا شروع کر دیتا ہے۔ تمنا اسے ہیپی مائنڈ فل ایکٹوٹی قرار دیتی ہیں۔ جتنا زیادہ آپ نوالے کو چبائیں گے، اتنا ہی وہ اچھا ہضم ہوگا اور جسم میں تمام مفید وٹامنز وغیرہ اچھے سے جذب ہوں گے۔
تمنا بھاٹیہ کے مطابق کھانا کھاتے ہوئے ہرگز ہرگز موبائل فون ساتھ نہیں ہونا چاہیے، ٹی وی نہ دیکھ رہے ہوں اور گفتگو سے بھی گریز کریں۔ فوکس کھانے پر رہے۔ یوں یہ کھانے کے ساتھ ایک مفید روحانی تجربہ بھی بن جائے گا۔ 
مجھے لگتا ہے کہ اس سب کچھ کے بعد اچانک شائد تمنا بھاٹیہ کا خیال آیا ہوگا کہ میرے جیسے لوگوں نے بھی اس کتاب کو پڑھنا ہے تو انہوں نے فوری طور پر بس نمبر11 کا آئیڈیا داغ دیا۔ ان کے نزدیک فٹنس کے لیے بس نمبر 11 کا سفر بہت ضروری ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ لوگ مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ ہمیں کون سی وٹامن لینی چاہیے، میں انہیں وٹامن ڈبلیو کا مشورہ دیتی ہوں اور وہ بس نمبر 11 کے روزانہ سفر سے ملتی ہے۔ بس نمبر 11 کا مطلب اپنی دونوں ٹانگیں استعمال کرتے ہوئے پیدل چلنا ہے۔ روزانہ پیدل چلنا۔ وہ کہتی ہیں کہ یوگا کے علاوہ یہ واحد چیز ہے جو ہر قسم کے لائف سٹائل کے لیے موزوں ہے۔
صرف 10 منٹ پیدل چلنا بھی بہت کچھ بہتر بنا دیتا ہے۔ تمنا بھاٹیہ کے مطابق جب وہ انڈیا میں ہوتی ہیں تو فلموں کی شوٹنگ وغیرہ کی وجہ سے صرف 10 ہزار قدم روز چلتی ہیں، مگر امریکہ میں ہوں تو 20 ہزار قدم روزانہ ہو جاتے ہیں۔ 
صحت کے حوالے سے تمنا کے کئی دیگر مشورے بھی ہیں۔ ان کے خیال میں اچھے سے پیٹ صاف کرنے کے لیے کموڈ کے بجائے ایسٹرن باتھ روم استعمال کرنا چاہیے کہ یہ فطرت سے زیادہ قریب اور مفید ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ باقاعدہ اہتمام کر کے رات کو سونے سے پہلے کلی اورٹوتھ برش وغیرہ کے ساتھ اپنی زبان بھی اچھی طرح سے صاف کرنی چاہیے۔ اس سے بیکٹریا کا لوڈ کم ہوگا اور معدہ بھی صحت مند رہے گا۔ ان کے خیال میں کیلے کے پتو ں پر خوراک سرو کرنے کا روایتی طریقہ بھی مفید ہے۔ ویسے انہوں نے ایک چیپٹر میں اس پر طویل بحث کی ہے کہ کس طرح کے برتنوں میں کھانا پکانا چاہیے۔ ایک گراف بنا کر سمجھایا کہ کن برتنوں میں کھانا نہیں بننا چاہیے، کن میں کھانا بن جائے مگر ان میں سرو نہیں ہونا چاہیے جیسے پلاسٹک وغیرہ۔ وہ مٹی کے برتنوں کو ترجیح دیتی ہیں یا پھر شیشے اور سٹین لیس سٹیل کے برتن۔

ماہرین کھانا کھانے سے پہلے پانی پینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ فوٹو: انسپلیش

تمنا بھاٹیہ کے تھیسس کے مطابق آج کل جتنی زیادہ الرجیز ہیں، ان میں سے 70 سے 80 فیصد کا پہلے زمانوں میں وجود ہی نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنے معدے اور انتڑیوں کو اگر صاف رکھیں گے تو بہت حد تک الرجیز اور بیماریاں کم ہوجائیں گی۔
اس کے لیے انہوں نے مختلف مشورے دیے ہیں۔ ان میں خمیر والی (پروبائیوٹک) خوراک اڈلی، ڈوسا وغیرہ یا دہی کا باقاعدہ استعمال شامل ہے۔ دودھ اچھی چیز ہے، مگر اے ٹو دودھ کو ترجیح دیں۔
مسالہ چائے کی عادت ڈالیں یعنی چائے کا کالا قہوہ جسے بناتے وقت کوٹی ہوئی ادرک کا چھوٹا ٹکڑا، الائچی، دارچینی کا ٹکڑا، سونف اور لونگ شامل کر لیں۔ یہ بہت سے مسائل سے نجات دلائے گی۔
کھانے سے آدھا گھنٹہ پہلے پانی لیں اور آدھا گھنٹہ بعد میں۔ درمیان میں اگر بہت ضرورت پڑے تو صرف ایک یا دو گھونٹ۔ کبھی اٹھتے ہوئے چائے نہ لیں (نو مور بیڈ ٹی)۔ اٹھ کر پہلے لیموں پانی یا کوئی پھل کھا کر جسم کو الکلائز کریں۔ کھانے کے فوری بعد بھی چائے نہ لیں۔ ایک اصول بنائیں کہ ہر چائے کے کپ کے بعد ایک گلاس پانی ضرور لیا جائے۔ 
تمنا بھاٹیہ نے بڑوں کے پیر یا گھٹنے چھونے کی روایتی مشرقی عادت کی بھی سائنسی توجیہہ بیان کی ہے کہ اس کے کیا فوائد ہیں۔ تمنا کے مطابق کان چھیدوانا بھی ایک مفید کام ہے، خواتین کے کئی نسوانی امراض اس سے بہتر ہوجاتے ہیں۔ یوگ علوم کے مطابق ائیررنگز پہننے سے باڈی کا الیکٹرک کرنٹ بھی مینٹین رہتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ مہندی لگانا صرف خوبصورتی نہیں بلکہ ہاتھ اور پیر کو مہندی لگانا جسم کو پرسکون بناتی ہے اور گرمی کا بخار بھی دور کرتی ہے۔ مہندی ویسے بھی اینٹی وائرل اور اینٹی فنگل ایجنٹ ہے اور اس سے ریشز وغیرہ بھی دور رہتے ہیں۔
تمنا کے مطابق ایورویدک اصولوں کی رو سے چوڑیاں پہننا نسوانی صحت کے لیے مفید ہے۔ پرانے حکیم اسی لیے سونے یا چاندی کی چوڑیاں پہننے کی تجویز دیتے تھے کہ یہ دھاتیں انرجی جذب کرتی ہیں اور کلائی کے ذریعے یہ انرجی جسم میں سرائیت کر جاتی ہے۔ کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے، ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ہے اور ایک کالم میں مگر چند ایک چیزیں ہی آ سکتی ہیں۔

شیئر: