Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مارخور ٹرافی ہنٹنگ پرمٹ میں اضافہ، قومی جانور کا شکار اب کم قیمت پر

سلیم الدین کے مطابق ’چترال گول پارک میں اس وقت 2400 سے زائد مارخور موجود ہیں۔‘ (فائل فوٹو: چترال گول نیشنل پارک)
صوبہ خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلی حیات نے مقامی شکاریوں کے لیے 10 مارخور اور 31 آئی بیکس کے شکار کے لیے ٹرافی ہنٹنگ پرمٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں ہر برس ٹرافی ہنٹنگ کے تحت قومی جانور مارخور کا شکار کیا جاتا ہے جس کے لیے ایک سیزن میں تین پرمٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ شکاری کو یہ پرمٹ باقاعدہ بولی لگنے کے بعد بھاری فیس ادا کر کے جاری کیے جاتے ہیں۔
رواں برس ٹرافی ہنٹنگ کا سیزن مکمل ہونے کے بعد محکمہ جنگلی حیات نے نئے ہنٹنگ سیزن کے لیے مارخور کے پرمٹ میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے، مگر انہیں نان ایکسپورٹ ایبل قرار دیا گیا ہے جن کی تعداد 10 ہو گی تاہم ایکسپورٹ ایبل پرمٹ کی تعداد تین ہی ہو گی۔
چیف کنزویٹر وائلڈ لائف ڈاکٹر محسن فاروق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ایکسپورٹ ایبل ٹرافی ہنٹنگ میں زیادہ تر غیرملکی شکاری شامل ہوتے ہیں جو شکار کے بعد جانور کے سینگ اور کھال کو اپنے ملک لے جاتے ہیں جس کی ان کو قانونی اجازت ہے۔
’اس ٹرافی ہنٹنگ کے پرمٹ کی قیمت مقامی کرنسی میں تین سے چار کروڑ روپے بنتی ہے تاہم اب مقامی شکاریوں کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے کم قیمت شکار کے لیے ناقابل برآمد پرمٹ جاری کیے جائیں گے جس کے پرمٹ کی قیمت انتہائی کم ہو گی۔‘
چیف کنزویٹر وائلڈ لائف کے مطابق ’نئے پرمٹ کے تحت شکاری ٹرافی کو ساتھ نہیں لے جا سکے گا یعنی مارخور کے سینگ وائلڈ لائف یا کمیونٹی کے حوالے کیے جائیں گے۔‘

آئی بیکس کے شکار کے لیے 31 پرمٹ

محکمہ وائلڈ لائف حکام نے جنگلی جانور آئی بیکس کے شکار کے لیے بھی 31 نان ایکسپورٹ ایبل پرمٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی بولی کی قیمت دو سے تین لاکھ روپے تک رکھی جائے گی۔
محسن فاروق کے مطابق شکار کے نان ایکسپورٹ ایبل پرمٹ کا مقصد یہ ہے کہ مقامی افراد یا پاکستان کے شکاری کم قیمت پر شکار کے شوق کو پورا کر سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان جانوروں کا شکار ایک مہنگا شوق ہے جس میں زیادہ تر غیرملکی شکاری دلچسپی لیتے ہیں مگر امید ہے کہ پرمٹ کی قیمت کم کرنے سے مقامی شکاری بھی شکار میں حصہ لے سکیں گے۔

چیف کنزویٹر وائلڈ لائف ڈاکٹر محسن فاروق نے بتایا کہ ایکسپورٹ ایبل ٹرافی ہنٹنگ میں زیادہ تر غیرملکی شکاری شامل ہوتے ہیں۔ (فائل فوٹو: ایکس)

محکمہ وائلڈ لائف حکام کے مطابق چترال میں ٹرافی ہنٹگ کے لیے تین مختص مقامات پر مارخور کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے، مگر اس بار چترال گول میں بھی شکار کے پرمٹ جاری کیے جائیں گے تاکہ چترال گول کمیونٹی کو رائلٹی کی مد میں فائدہ ہو۔

چترال میں شکار کا فیصلہ خوش آئند ہے

چترال گول کمیونٹی ڈویلپمنٹ اور کنزرویشن ایسوسی ایشن کے چیئرمین سلیم الدین نے محکمہ وائلڈ لائف کے فیصلے خوش آئند قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’محکمہ جنگلی حیات نے چترال گول میں مارخور کے شکار کے لیے پرمٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ ہمارے کمیونٹی کے لیے فائدہ مند ہے۔‘
’چترال گول پارک میں اس وقت 2400 سے زائد مارخور موجود ہیں جن کی افزائش نسل میں اضافے کی وجہ بہترین دیکھ بھال ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چترال گول میں 10 سے 15 سال کی عمر کے مارخور کی تعداد زیادہ ہے اور اکثر ان کی طبعی موت ہو جاتی ہے۔
سلیم الدین کے مطابق سالانہ 10 سے 15 مارخور کے طبعی موت مرنے سے کمیونٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس لیے اگر ایسے جانور کا شکار کیا جائے تو اس کے پرمٹ کے پیسے علاقے کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جا سکیں گے۔
چترال گول کمیونٹی کے چئیرمین نے مزید کہا کہ چترال گول میں ایسے مارخور موجود ہیں جن کے سینگوں کی لمبائی 50 سے 55 انچ تک لمبی ہے جو ٹرافی ہنٹنگ میں بہت معنی رکھتے ہیں۔

محکمہ وائلڈ لائف حکام نے جنگلی جانور آئی بیکس کے شکار کے لیے بھی 31 نان ایکسپورٹ ایبل پرمٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ (فائل فوٹو: بُک یور ہنٹ)

انہوں نے مطالبہ کیا کہ محکمہ جنگلی حیات چترال گول میں شکار کے لیے ایکسپورٹ ایبل پرمٹ کی بولی لگائے تاکہ اس علاقے میں غیرملکی شکاری آئیں۔

ٹرافی ہنٹنگ کیا ہے؟

پاکستان میں نایاب جانوروں کے بغیر اجازت شکار کو کم کرنے کے لیے قانون کے تحت 21 ویں صدی میں ٹرافی ہنٹنگ متعارف کروائی گئی۔
 چترال اور گلگت بلتستان سمیت ملک بھر کے محکمہ وائلڈ لائف اخبار میں اشتہار دے کر غیرملکی شکاریوں کو جنگلی حیات کے شکار کی دعوت دیتے ہیں۔ نہ صرف سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو شکار کی اجازت دی جاتی ہے بلکہ ان کے لیے جانور کی نشاندہی بھی کی جاتی ہے۔
وائلڈ لائف حکام کے مطابق شکار سے حاصل ہونے والی رقم کا 80 فیصد حصہ مقامی کمیونٹی پر خرچ کیا جاتا ہے جبکہ 20 فیصد محکمہ اپنے پاس رکھتا ہے۔ اس طرح مقامی لوگوں میں احساس ملکیت پیدا ہوتا ہے اور وہ مقامی جنگلی حیات کا تحفظ کرتے ہیں۔

شیئر: