Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرافی ہنٹنگ، چترال میں کشمیر مارخور کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ 

چترال مارخور ٹرافی ہنٹنگ کے باعث معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ فوٹو: محکمہ وائلڈ لائف چترال
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے  شمالی ضلع لوئر چترال میں محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے مقامی کمیونٹی کے ساتھ مل کر لیے گئے اقدامات کی بدولت معدومیت کے خطرے سے دوچار کشمیر مارخور کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے اشتراک سے چترال میں جنگلی حیات کے حوالے سے کیے گئے تازہ ترین سروے کے مطابق لوئر چترال میں مارخود کی تعداد میں ایک سال کے دوران اضافہ ہوا ہے۔  
اردو نیوز کے پاس موجود سروے کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت چترال میں 2 کمیونیٹی منیجیڈ گیم ریزوروز ہیں جو تھوشی شاشہ گیم ریزروز اور گہریت گولین گیم ریزروز کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہاں موجود مارخور کی تعداد 26 سو 58 ہے جبکہ 2023 میں ان کی تعداد دو ہزار 427 تھی۔
خیال رہے کہ چترال میں موجود چترال گول نیشنل پارک میں دو ہزار 394 کشمیر مارخور موجود ہیں۔
سروے کے مطابق چترال کے ان دو گیم ریزروز میں موجود مارخور میں سے 913 مادہ ہیں جبکہ ایک سال کی عمر کے671 مارخور پائے جاتے ہیں۔
سروے کے مطابق دو سال سے تین سال کے مارخور کی تعداد 283 ہے (یہ کلاس ون کے مارخور کہلاتے ہیں)۔ تین سے پانچ سال (کلاس ٹو) کے 223، پانچ سے لے کر آٹھ سال (کلاس تھری) 176 اور آٹھ سال سے (کلاس فور) کے 91 مارخور موجود ہیں۔  
ماہرین جنگلی حیات کے مطابق آٹھ سال سے بڑے مارخور ٹرافی سائز کے ہوتے ہیں اور ٹرافی ہنٹنگ سکیم کے تحت لائسنس نیلام کر کے ان کا شکار کرایا جاتا ہے۔  
ڈویژنل وائلڈ لائف آفیسر چترال فاروق نبی کے مطابق سال 2021 کے سروے کے مطابق مارخور کی تعداد 2349، 2022 میں 2405 اور 2023 میں 2427 تھی۔ 

محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے لیے گئے اقدامات سے کشمیر مارخور کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ وائلد لائف چترال

فاروق نبی نے بتایا کہ محکمہ وائلڈ لائف نے 2024 کا سروے ایس ایل ایف کے اشتراک سے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2023 کے سروے میں محکمے کو ڈبلیو ڈبلیو ایف کا اشتراک بھی حاصل تھا۔  
فارق نبی نے بتایا کہ تازہ ترین سروے کے مطابق اس وقت لوئر چترال میں موجود آئی بیکس کی تعداد 1888 ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی بیکس کی بہت بڑی تعداد اپر چترال میں پائی جاتی ہے۔ ان کے مطابق اپر چترال میں مارخور نہیں ہوتا۔ فاروق نبی نے بتایا کہ اپر چترال میں موجود جنگلی حیات کا سروے ابھی نہیں کیا گیا ہے۔  
ان کے مطابق لوئر چترال میں اس وقت 63 گولڈن ایگل پائے جاتے ہیں۔ لوئر چترال میں موجود پہاڑی بلیوں (سیاہ گوش) کی تعداد 39، تیتر (رام چکور) 906 اور چکور 2591 ہے۔  
جنگلی حیات کا سروے کس طرح کیا جاتا ہے؟ 
فاروق نبی نے بتایا کہ سروے کے لیے محکمہ دو طریقے استعمال کر تا ہے۔  
ایک طریقہ ونٹیج پوائنٹ میتھڈ (Vintage point method) کہلاتا ہے جبکہ دوسرا ڈبل آبزرور (double observer)۔  
ان کا کہنا تھا کہ ونٹیج پوائنٹ میتھڈ میں 30 سے 40 ایسے پوائنٹس کا انتخاب کیا جاتا ہے جہاں سے بہت بڑا ایریا نظر آتا ہے۔ وہاں سے محکمے کے اہلکار جنگلی حیات کی گنتی کرتے ہیں۔ 

 

دوسرے طریقے میں سروے کرنے والے تین سے چار اہکاروں کی ٹیم ایک طرف بھیجی جاتی ہے وہ گروپ راستے میں موجود یا نظر آنے والے جنگلی حیات کے نام اور تعداد نوٹ کرتا ہے۔ ٹیم جانوروں کی موجودگی کا جی پی ایس پوائنٹ بھی نوٹ کرتا ہے۔ اس ٹیم کے راستے پر 45 منٹ بعد ایک دوسری ٹیم بھیجی جاتی ہے اور وہ بھی اس راستے میں موجود جانوروں اور ان کی تعداد کو نوٹ کرتا ہے۔  
فاروق بنی کے مطابق مذکورہ ٹیموں کی جانب سے جمع کردرہ ڈیٹا کو لے کر ایک فارمولا کے مطابق جانوروں کی اصل تعداد معلوم کی جاتی ہے۔ 

چترال مارخور کی تعداد بڑھ کر 2427 ہو گئی ہے۔ محکمہ وائلد لائف چترال

ڈی ایف او کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلی حیات اپنے سروے کے لیے دونوں طریقے استعمال کرتا ہے۔ فاروق نبی کے مطابق دونوں طریقوں سے کیے گئے سروے کے نتائج میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ 
 ’بس دو تین مارخور یا دیگر جانوروں کا فرق آتا ہے۔  اس لیے ہم دونوں طریقوں سے یہ سروے کرتے ہیں۔‘ 
 مارخور کی تعداد میں اضافے کی وجہ 
پاکستان میں جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی جانور مارخور کی معدوم ہوتی نسل کو بچانے کے لیے شروع کی گئی ٹرافی ہنٹنگ سکیم کافی حد تک کامیاب رہی ہے۔ اس سکیم کی بدولت معدومیت کے خطرے کا شکار اس جانور کی تعداد ہر سال بڑھتی جارہی ہے۔ 
 پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے چترال اور کوہستان، گلگت بلتستان، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور صوبہ بلوچستان میں مارخور کی کئی قسمیں پائی جاتی ہیں۔ تاہم ان میں استور مارخور، کشمیر مارخور، سلیمان مارخور اور چلتن مارخور قابل ذکر ہیں۔  
محکمہ جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق 80 کی دہائی میں ملک بھر میں مارخور کے غیر قانونی شکار کے باعث اس کے نسل کے ختم ہونے کے شدید خطرات لاحق ہوگئے تھے۔
اس لیے حکومت اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم عالمی اداروں کی شراکت سے ٹرافی ہنٹنگ کی سکیم شروع کی گئی۔  
مذکورہ سکیم شروع کرانے والے اور خیبر پختونخوا کے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے سابق چیف کنزرویٹر ملک ممتاز نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس سکیم کا بنیادی مقصد مارخور کے شکار کو کنٹرول میں لانا تھا۔ 
’مارخور کی نسل کو بچانے کے لیے مقامی آبادی کو اعتماد میں لینا ضروری تھا۔ لیکن کمیونٹی صرف اس صورت میں مارخور کے نسل کے تحفظ کی سکیم میں ممدو معاون ہوتی جب ان کو اس کے فوائد نظر آتے اور مارخور کی وجہ سے ان کے مویشیوں کے چراگاہ میں مویشی چرانے پر جو پابندی لگائی جاتی ہے اس کا کوئی معاوضہ ملتا۔‘ 
’اس لیے ٹرافی ہنٹنگ کی سکیم 1996 میں شروع کی گئی اور لائسنس کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کا بہت بڑا حصہ یعنی 80 فیصد کمیونٹی پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ویلیج کنزرویشن کمیٹیز بنائی گئی اور ٹرافی ہنٹنگ سے حاصل رقم کمیونٹی کے ذریعے ہی کمیونٹی کے فلاح و بہبود کے منصوبوں مثلا واٹر سپلائی، تعلیم اور صحت پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘ 
’ جب ٹرافی ہنٹنگ کی رقم مقامی کمیونٹی کے ذریعے اور ان پر ہی خرچ ہونا شروع ہوئی تو وہ لوگ خود مارخور کے محافظ بن گئے اور اس طرح مارخور کی معدوم ہوتی نسل کو بچایا گیا۔‘ 

چترال میں مارخور کی سب سے زیادہ تعداد چترال گول نیشنل پارک میں پائی جاتی ہے۔ فوٹو: محکمہ وائلڈ لائف چترال

ملک ممتاز کا کہنا تھا کہ ابتدا میں ٹرافی ہنٹنگ کے لیے  بولی پانچ ہزار ڈالر سے شروع ہوئی لیکن پچھلے سال سب سے زیادہ بڑی بولی چترال میں لگی جو ڈھائی لاکھ ڈالر کے قریب تھی۔ 
 برفانی تیندوے کی نسل چترال میں معدومیت کے خطرے کا شکار 
ایک سوال کے جواب میں ملک ممتاز، جو کہ بری پور یونیورٹی میں بطور ماہر جنگلی حیات پڑھاتے بھی رہے ہیں، نے بتایا کہ اس وقت چترال میں سب سے زیادہ خطرہ سنو لیپرڈ یا برفانی تیندوے کی نسل کو ہے۔  
ان کے مطابق چونکہ تیندوا ایک تو مقامی کمیونٹی کے مال مویشیوں پر حملہ کرتا ہے اس لیے وہ لوگ اس کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں دوسری جانب شوقین شکاری بھی تیندوے کے شکار کی کوشش کرتے ہیں۔  
’جب تک کمیونٹی کے نقصانات کا ازالہ نہیں کیا جائے گا اور برفانی تیندوے کے مال مویشیوں کے شکار پر ان کو مارنے کی کوششیں ختم نہیں کی جائے گی تو اس کی نسل کو درپیش شدید خطرات کم نہیں ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر تیندوا مقامی کمیونٹی کے مال مویشیوں پر حملہ کرتا ہے اور ان کو نقصان پہنچاتا ہے تو کمیونٹی کے ان نقصانات کے ازالے کا مستقل بندوبست کرنا ہوگا تاکہ کمیونٹی کے لوگ تیندوے کو مارنے کی کوشش نہ کریں۔ 
'مارخور کے کیس میں بھی یہی کیا گیا کہ مارخور چرنے کےلیے مقامی کمیونٹی کے فصلوں میں گھس جاتے ہیں اس لیے ان فصلوں کے نقصانات کا ازالہ کیا جاتا ہے اس لیے مقامی لوگ ان جانوروں کو کچھ نہیں کہتے بلکہ فصلوں میں چرنے دیتے ہیں۔'

شیئر: