فلسطینی فُوڈ بلاگر حمادة شقورة دنیا کی 100 بااثر شخصیات میں شامل
جمعرات 3 اکتوبر 2024 16:45
حمادة شقورة کھانا پکا کر مہاجر کیمپوں کے بچوں میں بانٹتے ہیں (فوٹو: انسٹاگرام)
معروف امریکی جریدے ’ٹائمز‘ نے حال ہی میں دنیا کے 100 بااثر شخصیات کی ایک فہرست جاری کی ہے۔
اس فہرست میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد شامل ہیں جو سیاست، سماج، سائنس وغیرہ کے شعبوں میں خدمات سرانجام دے کر انسانیت کی بقا اور خدمت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
فلسطین سے تعلق رکھنے والے فُوڈ بلاگر حمادة شقورة بھی دنیا کی 100 بااثر شخصیات کی اس فہرست میں شامل ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حمادة شقورة کا شمار ان مزاحمتی آوازوں میں ہوتا ہے جو اسرائیل کی غزہ کے خلاف جنگ کے دوران اٹھی ہیں۔
33 سالہ حمادة شقورة ایک مارکیٹنگ پرفیشنل تھے لیکن جنگ کی وجہ سے ان کے کیریئر کا اختتام ہو گیا۔
اسرائیلی بم باری سے جب بے شمار مارکیٹیں، مکان، سکول اور رہائشی عمارتیں تباہ ہوگئیں تو اس وقت لاکھوں دوسرے لوگوں کی طرح حمادة شقورة کو بھی کیریئر کے ساتھ ساتھ اپنے گھر بار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
اس کے بعد حمادة شقورة جنگ کے دوران ایک فوڈ بلاگر کے طور پر سامنے آئے اور اب وہ سوشل میڈیا پر کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد کے لوگوں کی صورتحال بھی دکھاتے ہیں۔
وہ اپنی ویڈیوز میں دکھاتے ہیں کہ کس طرح سے وہ بڑی ہی کم مقدار میں غزہ پہنچنے والی امداد کے ذریعے مختلف کھانے تیار کرتے ہیں۔
اور پھر یہ کھانے غزہ کے چپے چپے میں پھیلے مہاجر کیمپوں میں موجود بچوں تک پہنچاتے ہیں۔
غزہ کے سنگین حالات کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرنے کے ساتھ حمادة شقورة خوارک حاصل کرنے والے بچوں کی خوشی اور علاقے میں منڈلاتے قحط کے خطرات کو دنیا کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
حمادة شقورة کی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر بہت پذیرائی ملی ہے۔
یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں رہائش پذیر 90 فیصد سے زائد بچوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔
جس کی وجہ سے انہیں خطرناک بیماریاں اور دوسرے صحت کے مسائل کے لاحق ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔
کھانا پکا کر بانٹنا اب حمادة شقورة کا مشن بن گیا ہے۔ ٹائمز میگزین سے بات چیت کرتے ہوئے حمادة شقورة کا کہنا تھا کہ ’میں نے خیموں کے بچوں کے لیے لذیذ اور صاف ستھرا کھانا بنانے کی ذمہ داری خود لی۔‘