Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان اسمبلی کی نئی عمارت کے لیے 5 ارب، ’بلڈنگز نہیں لوگوں پر خرچ کریں‘

بجٹ میں اسمبلی عمارت کی تزئین و آرائش کے لیے 91 کروڑ روپے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
کوئٹہ کے مرکز میں زرغون روڈ پر خیمے کی طرز پر بنی بلوچستان اسمبلی کی تاریخی عمارت نہ صرف شہر کے باسیوں بلکہ دور دراز سے آئے سیاحوں کی بھی توجہ کا مرکز رہتی ہے۔ تاہم صوبے کی ثقافت کی آئینہ دار سمجھی جانے والی اس تاریخی عمارت کو اب بلوچستان حکومت نے گرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس فیصلے نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے جس میں حکومت کے کوئٹہ کے علاوہ اسلام آباد، کراچی، گوادر اور زیارت میں گورنر، وزیراعلیٰ  اور ارکان اسمبلی کی رہائشگاہوں کی تعمیر اور گاڑیوں کی خریداری کے اربوں روپے کے منصوبوں پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ محض 37 سال سال قبل بنی عمارت گرا کر اس کی جگہ پانچ ارب روپے کی خطیر رقم سے نئی عمارت کی تعمیر کا فیصلہ ایسے صوبے کے پیسے کا درست استعمال نہیں جس کے بیشتر سکول اور ہسپتال بنیادی سہولیات سے محروم اور 30 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
1970 میں ون یونٹ کی تحلیل کے بعد بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا تو بلوچستان اسمبلی بھی وجود میں آئی تاہم اس وقت اسمبلی کے لیے باقاعدہ عمارت موجود نہیں تھی۔ اسمبلی کا پہلا اجلاس بھی شاہی جرگہ ہال (موجودہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن ہال) میں منعقد ہوا جو اب کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا حصہ ہے۔ 1987 تک  یہی اسمبلی کی کارروائی  ہوتی رہی۔
بلوچستان اسمبلی کے لیے بلوچی گدان (خیمہ) کی طرز پر نئی عمارت کا تصور سابق گورنر بلوچستان نواب اکبر خان  بگٹی نے اس وقت پیش کیا جب وہ گورنر بلوچستان تھے۔ خیمے کو بلوچی ثقافت کا آئینہ دار سمجھا جاتا ہے اس لیے نواب اکبر بگٹی نے اس سے مشابہہ آرکیٹیکچرل ڈیزائن کی تجویز دی۔
اس منصوبے کے لیے شہر کے وسط میں زرغون روڈ پر 12 ایکڑ زمین  مختص کی گئی۔ نواب اکبر بگٹی نے ہی 1973 میں عمارت کا بنیاد رکھا۔ اپریل 1987 میں پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کا کام مکمل ہوا تو اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا۔
بلوچستان کی پہلی اسمبلی کے ممبران کی تعداد 21 تھی جو بڑھ کراب 65 ہو گئی ہے۔ موجودہ عمارت میں اسمبلی اجلاس کے لیے مختص ایوان میں اراکین کے لیے 72 نشستیں رکھی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ  گورنر، قائد ایوان، سپیکر اوراراکین کی مشترکہ گیلری میں مہمانوں کے لیے 25 اور صوبائی حکومت کے سینیئر افسران کے لیے بھی 25 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ بالائی حصے میں مہمانوں کے لیے 168 جبکہ صحافیوں کے لیے 55 نشستیں مختص ہیں۔
اسمبلی کی عمارت میں وزیراعلیٰ، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، قائد حزب اختلاف کے لیے چیمبر، وزرا اور سیکریٹری اسمبلی کے لیے دفتر بھی موجود ہے۔ لائبریری، میڈیا سینٹر، اسمبلی سیکریٹریٹ کے لیے الگ بلاک، مسجد، ایم پی اے ہاسٹلز، سٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین کے دفاتر بھی اسمبلی کے احاطے میں قائم  ہیں۔
کوئٹہ کے صحافی نور العارفین کے مطابق عمارت کی خوبصورتی میں حالیہ برسوں میں سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے حفاظتی  دیوار تعمیر ہونے کی وجہ سے کمی آئی۔ اب یہ باہر سے پہلے کی طرح واضح اور خوبصورت نظر نہیں آتی لیکن اس کے باوجود یہ صوبے کی  منفرد اور دلکش عمارتوں میں ایک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ صوبے کی پارلیمانی تاریخ کی علامت بھی ہے۔ لوگ یہاں تصویریں کھینچنے آتے ہیں۔ جب اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے تو اس کے باہر مختلف تنظیمیں ، سرکاری ملازمین ، عام لوگ اور سیاسی جماعتیں اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے بھی کرتی ہیں۔

اسمبلی کے لیے بلوچی گدان (خیمہ) کے طرز پر نئی عمارت کا تصور نواب اکبر بگٹی نے پیش کیا تھا۔ فائل فوٹو: اردو نیوز

بلوچستان حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ  میں سالانہ ترقیاتی پروگرام میں  بلوچستان اسمبلی کی اس تاریخی عمارت کو گرا کر نئی عمارت کی تعمیر کے لیے 5 ارب روپے کے منصوبے کی منظوری دی ہے ۔بجٹ دستاویزات کے مطابق منصوبے کے لیے پہلے سال پچاس کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
حیران کن طور پر بلوچستان اسمبلی کے موجودہ بجٹ میں اسمبلی عمارت کی تزئین و آرائش کے لیے 91 کروڑ روپے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے اب تک یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ جب موجودہ عمارت کو گرانا ہے تو اس کی تزئین و آرائش پر 91 کروڑ روپے  کیوں خرچ کیے جائیں گے۔
بلوچستان اسمبلی کے احاطے میں کمیٹی رومز، سٹیڈنگ کمیٹیز کے چیئرمین کے دفاتر کی تعمیر کے لیے 70کروڑ روپے  کا ایک اور منصوبہ بھی پچھلے سالوں میں  منظور کیا گیا۔
اس کے علاوہ رواں سال کے بجٹ میں نئی گاڑیوں کی خریداری کے لیے 40 کروڑ روپے بھی رکھے گئے ہیں۔ بلوچستان  کی پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی(بی پیپرا) کی ویب سائٹ کے مطابق صوبائی اسمبلی  کے حکام نے 10 اکتوبر کو900 سی سی سے 3900 سی سی تک کی  59 نئی گاڑیوں کی خریداری کا ٹینڈر طلب کر رکھا ہے۔
بلوچستان اسمبلی کے 65 ارکان اور 800 سے زائد ملازمین  کے لیے  مجموعی طور پر 2 ارب 67 کروڑ  روپے کا غیر ترقیاتی بجٹ مختص ہے۔
بلوچستان کی پچھلی حکومت  نے اسلام آباد میں ارکان اسمبلی کی رہائش کے لیے بلوچستان ہاؤس ،گورنر اور وزیراعلیٰ کی رہائشگاہوں  کو گراکر اس کی دوبارہ تعمیر کے لیے تقریباً 2 ارب 80 کروڑ روپے  جبکہ کراچی میں بلوچستان ہاؤس، گورنر اور وزیراعلیٰ کی رہائشگاہوں کی تزئین و آرائش کے لیے 65 کروڑروپے   مختص کئے تھے۔اس کے علاوہ گوادر میں وزیراعلیٰ انیکسی کی تعمیر پر 12کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
2016 میں  کوئٹہ میں  وزیراعلیٰ ہاؤس میں نئی تعمیرات کا ایک منصوبہ منظور کیاگیا جس پر بقول وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو کے ڈیڑھ ارب سے زائد خرچ کیے گئے۔

سابق وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے نئی عمارت کی بروقت تعمیر کے حوالے سے تحفظات ظاہر کیے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

دوسری جانب محکمہ تعلیم بلوچستان کی 2021-22 کی رپورٹ کےمطابق صوبے کے 15 ہزار سکولوں  میں 3 ہزار سے زائد سکول بند ، 3424 سکول صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں جبکہ 12 فیصد یعنی  1910 سکول عمارت  اور52 فیصد سکول  چار دیواری کے بغیر ہیں۔ 70فیصد سکولوں میں پانی ، 58 فیصد سکولوں میں  ٹوائلٹ، 78 فیصد سکولوں میں بجلی کی سہولت نہیں ۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں5 سال سے 16 سال کی عمر کے  65 فیصد  بچےیعنی لگ بھگ 30 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
اس صورتحال میں بلوچستان میں ترقیاتی فنڈز کے درست استعمال پر سوال اٹھائے جارہے ہیں اور بلوچستان اسمبلی کی موجودہ عمارت کو گراکر نئی عمارت کی تعمیر پر خطیر رقم خرچ کرنے جیسے منصوبوں پر  تنقید کی جا رہی ہے۔
 گوادر سے منتخب رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ ’ایسے صوبے میں جہاں کے لوگ علاج کے لیے کراچی کے ہسپتالوں کے باہر فٹ پاتھوں پر پڑے رہتے ہیں ، لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں، لوگوں کو روزگار ، پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں وہاں پانچ ارب روپے ایک عمارت کی تعمیر پر خرچ کرنا افسوسناک ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو پیسہ کا درست استعمال کرتے ہوئے اسے عمارتوں کی بجائے شہریوں پر خرچ کرنا چاہیے۔
سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی  نے حکومت کو مشورہ دیا کہ نئی عمارت کی تعمیر کی بجائے موجودہ عمارت کی مرمت، تزئین و آرائش کی جائے اور بجلی کے نظام کو شمسی پر منتقل کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے قرضے پر فضول خرچی نہیں ہونی چاہیے یہ رقم تعلیم، صحت، پانی اور زراعت سمیت سماجی بہبود کے لیے استعمال کی جائے۔
نواب اکبر بگٹی کے ترجمان رہنے والے سابق سینیٹر سینیئر وکیل امان اللہ کنرانی نے بھی حکومتی فیصلے کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ نواب بگٹی کی نشانیوں کو سیاسی عداوت کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے اسمبلی عمارت کو منہدم کرنے کی منصوبہ  بندی کی جا رہی ہے۔ ’تاریخ و ثقافت کو مسخ کرنے کے ہر قسم کے حکومتی اقدام کی مزاحمت کی جائے گی۔‘
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ ’جب سو سو سال پرانے کچے گھر آج بھی قابل استعمال  ہیں تو بلوچستان اسمبلی کی موجودہ عمارت کو کیوں گرایا جا رہا ہے یہ تو ابھی ستر اور 80 کی دہائی میں بنی ہے۔‘
انہوں نے نئی عمارت کی بروقت تکمیل سے متعلق بھی تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ’ہم  سے پی اے ہاسٹل کی عمارت پانچ سال میں تیار نہیں ہو سکی۔ اگر اسمبلی کی عمارت کو گرایا جائے گا تو دوبارہ تعمیر پر دس 20 سال لگ جائیں گے۔‘

سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی  نے حکومت کو مشورہ دیا کہ پرانی عمارت کو ہی بہتر بنایا جائے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

تاہم بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’ہماری کوشش ہوگی کہ نئی عمارت جلد سے جلد مکمل ہو، اس سلسلے میں  ایک چینی فرم سے بات کی ہے جس نے ایک سال میں تعمیراتی کام مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔‘
بلوچستان اسمبلی کے سابق سیکریٹری شمس الدین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ عمارت کی اپنی تاریخی و ثقافتی ورثے کے طور پر اہمیت ہے۔ ’بارش میں پانی ٹپکنے جیسی شکایات کے باوجود عمارت اتنی بوسیدہ یا پرانی نہیں کہ اسے گرایا جائے۔ اگر حکومت مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر نئی عمارت بنانا چاہتی ہے تو الگ بات ہے۔‘
بلوچستان کے وزیر ترقی و منصوبہ بندی  ظہور بلیدی نے اسمبلی کے ایک اجلاس میں منصوبے سے متعلق اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کا ہال کافی پرانا ہو چکا ہے، اس کا ساؤنڈ سسٹم، مائیک اور کرسیاں خستہ حال ہو چکی ہیں۔ ’اگر اس کی تزئین و آرائش کرنے بیٹھ جائیں تو بلڈنگ کا سٹرکچر شاید برداشت نہ کر سکے اس لیے دوبارہ بنانا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ماہرین کو بلائیں گے اگر انہوں نے کہا کہ یہ عمارت مزید دس 20 سال چل سکتی ہے تو ہم چلالیں گے۔ لیکن اگر ان کی رائے ہوئی کہ عمارت خستہ حال ہے اور نہیں چل سکتی تو اس سے پہلے کہ عمارت ہم پر گر جائے اس کو گرا دیتے ہیں اور اسی طرز پر نئی بنا دیں گے۔‘

شیئر: