قصور: گندے نالے میں لاش کے ٹکڑے، پولیس نے اندھا قتل کیسے ٹریس کیا؟
قصور: گندے نالے میں لاش کے ٹکڑے، پولیس نے اندھا قتل کیسے ٹریس کیا؟
ہفتہ 5 اکتوبر 2024 6:43
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز
ابتدائی طور پر پولیس کو جسم کے کئی اعضا ملے لیکن اندھے قتل کی یہ واردات ایک معما بن چکی تھی (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)
پنجاب کے ضلع قصور میں 23 اگست کو یہ عام دنوں کی طرح کا ایک معمول کا دن تھا۔ اہلِ علاقہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان کے ایک اہلِ محلہ کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کے ٹکڑے قریب ہی گندے نالے میں بہائے جا چکے ہیں۔
قصور کے علاقے جماعت پور کا شہزاد بھی اس لرزہ خیز حقیقت سے انجان تھا۔ وہ اس روز گھر سے نکلنے کے بعد جب واٹر فلٹر پلانٹ کے قریب گندے نالے پر پہنچا تو چونک گیا۔ اُسے نالے کے پاس ایک مسخ شدہ انسانی ٹانگ نظر آئی۔
قصور پولیس کے مطابق شہزاد نے 15 پر اطلاع دی تو پولیس نفری فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔ یہ خبر اس دوران پورے علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی اور لوگ جائے وقوعہ پر جمع ہونے لگے تھے۔
قصور پولیس کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ’یہ علاقہ تھانہ بی ڈویژن کی حدود میں آتا ہے۔ پولیس نے ٹانگ ملنے کے بعد لاش کے دیگر اعضا کی تلاش کا کام شروع کیا لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی جس کے بعد 24 اگست کو ریسکیو 1122 اور بلدیہ کے عملے سے مدد طلب کی گئی۔‘
24 اگست تک یہ خبر علاقے کے ہر گھر تک پہنچ چکی تھی اور لوگ اس مسخ شدہ ٹانگ سے متعلق مختلف باتیں کر رہے تھے۔
ایک مقامی شہری نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہمارے علاقے میں لوگ اس طرح کے وقوعہ کے لیے تیار نہ تھے۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ نوعیت کا کیس معلوم ہو رہا تھا کیوں کہ جو ٹانگ ملی تھی وہ بہت بری حالت میں تھی۔ لوگ تو کسی آدم خور جانور کی موجودگی کا دعویٰ بھی کر رہے تھے۔‘
قصور پولیس کے ترجمان ساجد کے مطابق ’پولیس نے ریسکیو 1122 کی مدد سے گندے نالے میں تلاش شروع کی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پولیس لاش کے دیگر حصے ڈھونڈ کر واقعے کی نوعیت کا تعین کرنا چاہتی تھی جو صرف ایک ٹانگ سے کرنا مشکل تھا۔ گندے نالے میں پولیس کو تین مختلف تھیلے ملے جن میں لاش کے سر کٹے دھڑ سمیت مزید ایک ٹانگ اور دو بازو ملے۔‘
ابتدائی طور پر پولیس کو جسم کے کئی اعضا ملے لیکن اندھے قتل کی یہ واردات ایک معما بن چکی تھی جس کے بعد قصور پولیس کے اعلٰی افسروں نے بھی واردات کا نوٹس لیا۔
ڈی پی او قصور محمد عیسیٰ خاں کی ہدایت پر ڈی ایس پی سٹی محمد سیف اللہ بھٹی اور ایس ایچ او بی ڈویژن ملک جبار کی سربراہی میں ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی تاکہ اندھے قتل کی اس گتھی کو سلجھایا جا سکے۔
پولیس نے کرائم سین یونٹ اور پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی (پی ایف ایس اے) کی ٹیم کو جائے واردات سے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے طلب کیا۔ پولیس کے مطابق، لاش کے فنگر پرنٹس اور ڈی این اے کے نمونے جمع کیے گئے۔
قصور پولیس کے ترجمان کے مطابق ’پولیس نے فوری طور پر فنگر پرنٹس اور ڈی این اے کے نمونے لاہور میں پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی لیبارٹری بھجوا دیے جب کہ ضلعی پولیس نے مقامی سطح پر سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز دیکھنا شروع کیں۔‘
قصور پولیس دن رات اندھے قتل کی اس لرزہ خیز واردات کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف تھی کیوں کہ یہ جماعت پور کے علاقے میں رونما ہونے والا ایسا پہلا واقعہ تھا اور اس کی وجہ سے علاقے میں خوف و ہراس بھی پھیل رہا تھا۔
دوسرے جانب پولیس بھی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی اور تفتیش سے متعلق ہر معاملے کو شبہ کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا۔
پولیس کے مطابق خصوصی ٹیم کے اہلکار اور افسر ابھی تفتیش میں ہی مصروف تھے جب ان کی نظر گندے نالے سے ملے ان تین تھیلوں پر پڑی جن میں انسانی اعضا بند کر کے نالے میں پھینکے گئے تھے۔
ترجمان قصور پولیس کے مطابق ’جن تھیلوں سے انسانی اعضا ملے تھے وہ ایک چینی کمپنی کے تھے۔ اس لیے پولیس نے شہر کے تاجروں کے ساتھ مل کر ان کے خریداروں سے متعلق دریافت کرنا شروع کیا اور علاقے میں اس قتل سے متعلق اشتہارِ شور و غوغا بھی جاری کیا گیا تاکہ پولیس کو کوئی سراغ مل سکے۔‘
پولیس کو سب سے بڑی رکاوٹ لاش کی شناخت نہ ہونے کے تناظر میں پیش آ رہی تھی جس کے بغیر تفتیش کا دائرہ کار کسی صورت آگے بڑھ پانا ممکن نہیں تھا۔
پولیس نے لاہور، قصور، اوکاڑہ، شیخوپورہ اور ننکانہ میں درج اغوا کے مقدمات کا بھی جائزہ لیا اور مدعیوں سے رابطہ کر کے پوچھ گچھ بھی کی لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔
تین ستمبر کو قصور پولیس کو (نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) نادرا سے رپورٹ موصول ہوئی جس میں یہ انکشاف ہوا کہ یہ اعضا ساہیوال کے رہائشی اعجاز ولد رؤف کے ہیں جو قصور کے علاقے جماعت پور میں ہی مقیم تھا۔
قصور پولیس کے ترجمان کے مطابق نادرا ریکارڈ سے مقتول کے شناختی کارڈ اور پھر اس کے نام پر رجسٹرڈ سمز کے نمبرز حاصل کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ’نادرا ریکارڈ سے کئی چیزیں واضح ہوگئیں۔ مقتول کے نام پر رجسٹرڈ سمز کا کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) حاصل کیا گیا تو 20 مشتبہ افراد کو تفتیش کے لیے بلایا گیا۔
پولیس نے اس دوران اصل ملزم کو حراست میں لے لیا جس کا نام عمران عرف سیف اللہ بتایا گیا ہے۔
پولیس نے مرکزی ملزم عمران کو حراست میں لے کر تفتیش کا دائرہ کار مزید بڑھایا۔
ترجمان قصور پولیس کے مطابق ’اندھے قتل کی یہ تفتیش 20 دنوں میں مکمل ہوئی۔ پولیس نے جسم کے اعضا تلاش کیے اور پھر دیگر پہلوؤں سے کیس کی تفتیش کی تو مرکزی ملزم پکڑا گیا۔‘
مرکزی ملزم عمران نے پولیس کی حراست میں اعتراف کیا کہ ’اس نے ہی اعجاز نامی اس شخص کو قتل کیا ہے۔‘
پولیس کے مطابق ملزم نے انکشاف کیا کہ مقتول اعجاز اس کی بیوی کا سابقہ شوہر تھا۔
پولیس کے مطابق ’ملزم عمران نے پولیس کو دورانِ تفتیش یہ بھی بتایا کہ مقتول اس کی اہلیہ ارم بی بی کا سابق شوہر تھا اور اس کو مسلسل تنگ کر رہا تھا جس کے باعث ملزم نے طیش میں آ کر اعجاز کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔‘
ملزم نے پولیس کو بتایا کہ ’20 اگست کی رات مقتول اعجاز اپنے گھر میں سو رہا تھا، اس نے وہاں جا کر اس کو گلا دبا کر قتل کر دیا۔‘
قصور پولیس کے مطابق ’ملزم نے اعجاز کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنایا اور اس کے جسم کو ٹوکے کی مدد سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تھیلوں میں بند کیا اور گندے نالے میں پھینک دیا اور فرار ہو گیا۔‘
قصور پولیس کے ترجمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ قتل کی ایک ایسی سفاکانہ واردات تھی جس کی پورے ضلع میں مثال نہیں ملتی۔ پولیس کے لیے محض جسم کے اعضا سے مقتول کی شناخت اور پھر نامعلوم ملزم کا سراغ لگانا کسی چیلنج سے کم نہ تھا لیکن پولیس نے پیشہ ورانہ مہارت سے اندھے قتل کی اس واردات کو سلجھایا۔‘
ڈی پی او قصور محمد عیسیٰ خان نے 20 دنوں میں اندھے قتل کی کامیاب تفتیش کرنے اور ملزم کو گرفتار کرنے پر پولیس ٹیم کو نقد انعام اور تعریفی اسناد سے نوازا ہے۔