Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجگور میں مزدوروں کا قتل: ’موٹر سائیکل میں پیٹرول ختم نہ ہوتا تو زندہ نہ بچ پاتا‘

اگست میں ضلع موسیٰ خیل میں عسکریت پسندوں نے 23 افراد کو مسافر بسوں سے اتار کر قتل کر دیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
زیر تعمیر مکان میں کام کرکے مغرب ہونے کے بعد میں اپنے بھتیجے اور ایک ساتھی مزدورکو موٹر سائیکل پر لے کر جا رہا تھا کہ راستے میں پیٹرول ختم ہو گیا۔ میں نے بھتیجے اور دوسرے ساتھی کو پیدل ہی رہائشگاہ کی طرف جانے کا کہا اور خود موٹر سائیکل واپس زیرِ تعمیر مکان میں کھڑی کرنے چلا گیا۔ واپس آیا تو سب کچھ بدل چکا تھا۔‘
یہ کہنا ہے کہ  پنجاب کے ضلع ملتان کے رہائشی عمران کا جن کے ایک بھائی سمیت سات ساتھیوں کو دو روز قبل پنجگور میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا تاہم عمران کی جان موٹر سائیکل میں پیٹرول ختم ہونے کی وجہ سے بچ گئی۔
عمران کا کہنا ہے کہ ’اس دن موٹر سائیکل میں پٹرول ختم نہ ہوتا تو شاید میں بھی آج زندہ نہ بچ پاتا۔‘
 سنیچر کی شب ایران سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع پنجگور کےعلاقے خدابدان میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے تمام سات افراد کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع ملتان کی تحصیل شجاع آباد سے تھا جن کی تدفین گزشتہ روز آبائی علاقے میں کر دی گئیں۔
پولیس نے اس واقعے کا مقدمہ عمران کی مدعیت میں تھانہ سی ٹی ڈی مکران  تربت میں نامعلوم افراد کے خلاف انسداد دہشتگردی، قتل اور اقدام قتل کی دفعات کے تحت درج کر لیا ہے۔
عمران نے پولیس کو بتایا کہ وہ گزشتہ دس برس سے پنجگور میں مزدوری کر رہے ہیں۔ یہاں ان کے ہمراہ بھائی ساجد عرف پہلوان اور بھتیجا بلال اور چھ دوسرے رشتہ دار محمد رمضان، فیاض، شفیق، سلیمان، افتخار اور خالد  بھی تعمیراتی کام  کرتے تھے۔
عمران کے مطابق ’ہم دن کو مختلف جگہوں پر کام کرتے اور رات کو پنجگور کے علاقے خدابدان میں ملا عالم نامی شخص کے خالی مکان میں کرایے پر رہتے تھے۔ ان دنوں پنجگورکے علاقے خدابدان میں ہی ابو بکر نامی شخص کے مکان میں کام کر رہے تھے۔ اس مکان سے کام کی جگہ تک موٹر سائیکل پر آتے جاتے تھے۔‘
عمران کے بقول پیٹرول ختم ہونے کی وجہ سے ابو بکر کے زیر تعمیر مکان میں موٹر سائیکل کھڑی کی۔ ’وہاں موٹر سائیکل کھڑی کر کے مکان کی طرف جا رہا تھا کہ مجھے شدید فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ کچھ دیر بعد وہاں پہنچا تو بھائی، بھتیجا اور باقی ساتھی خون میں لت پت تھے۔ چھ لوگ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے۔ رمضان اور بلال زخمی ہو گئے بعد ازاں رمضان بھی ہسپتال میں دم توڑ گیا۔‘
ڈی ایس پی پنجگور صدورو خان لاشاری کا کہنا ہے کہ ’بلال کو صرف پاؤں میں گولیاں ماری گئیں۔ ان کی حالت خطرے سے باہر ہے، حملہ آوروں نے  سمجھا کہ وہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کا ساتھی نہیں ہے اس لیے انہیں چھوڑ دیا۔ حملہ آوروں نے سب کو دیوار کے پاس کھڑا کرکے انہیں اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنایا۔‘
ابتدائی تحقیقات کے مطابق مقتولین کو سر اور جسم کے مختلف حصوں میں کئی کئی گولیاں ماری گئیں۔ حملہ آوروں نے کلاشنکوف اور نائن ایم ایم پستول کا استعمال کیا۔ جائے وقوعہ سے دونوں ہتھیاروں کے تقریباً 65 خالی خول ملے ہیں۔

مزدور خدابدان میں ملا عالم نامی شخص کے خالی مکان میں کرایے پر رہتے تھے۔ (فوٹو: پنجگور پولیس)

رواں سال اب تک 50 سے زائد غیر مقامی مزدوروں اور مسافروں کا قتل
بلوچستان میں پنجاب اور سندھ سمیت دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے غیر مقامی مزدوروں اور مسافروں کے قتل کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔  رواں ہفتے ہی کوئٹہ میں پنجاب کے علاقے بہاولپور سے تعلق رکھنے والے حجام کی ٹارگٹ کِلنگ کی گئی۔
پولیس اور لیویز کے اعداد و شمار کے مطابق صرف اس سال اب تک  بلوچستان میں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے 50 سے زائد افراد کو شناخت کے بعد قتل کیا جا چکا ہے۔
26 اگست کی شب کو پنجاب سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں عسکریت پسندوں نے 23 افراد کو مسافر بسوں سے اتار کر قتل کر دیا تھا، ان میں کم از کم 20 افراد کا تعلق پنجاب سے تھا۔ اسی طرح رواں سال مئی میں گوادر کے علاقے سربندن میں پنجاب کے ضلع خانیوال سے تعلق رکھنے والے سات افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔
 28 اپریل کو ضلع کیچ میں تعمیراتی کام کرنے والے دو مزدوروں کو قتل کیا گیا۔ اپریل ہی میں کوئٹہ سے ایران جانے والے پنجاب کے رہائشی 9 مسافروں کو شناخت کرکے بس سے اتار کر قتل کیا گیا۔
اپریل 2015 میں تربت کے علاقے گوکدان میں مزدوروں کے ایک کیمپ پر نامعلوم افراد نے حملہ کرکے 20 مزدوروں کو قتل کر دیا تھا۔
 اسی طرح اس ضلع میں جولائی 2012 میں 18 افراد اور نومبر 2017 میں یورپ جانے کے خواہشمند پنجاب کے 15 رہائشیوں کو پاکستان ایران سرحد کے قریب قتل کر دیا گیا تھا۔
ایسے زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری صوبے میں سرگرم بلوچ مسلح تنظیموں بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ قبول کرتی رہی ہے تاہم پنجگور کے واقعے کی ذمہ داری اب تک کسی تنظیم نے قبول نہیں کی۔
’پنجگور واقعہ ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پیش آیا‘
بلوچستان میں پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کے قتل کے مسلسل واقعات کے بعد حکومت نے پولیس، لیویز اور ضلعی انتظامیہ کو دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں  اور مسافروں کی سکیورٹی سخت کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔
نوشکی واقعے کے بعد مسافر بسوں میں سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی، چیک پوسٹوں کی تعداد اور پولیس اور لیویز سمیت سکیورٹی اداروں کے گشت میں اضافے  کے ساتھ ساتھ حساس اضلاع میں بغیر اجازت غیر مقامی افراد کے سفر پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جبکہ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔

نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے تمام سات افراد کا تعلق ضلع ملتان کی تحصیل شجاع آباد سے تھا۔ (فوٹو: حکومتِ بلوچستان)

تاہم حکام کا کہنا ہے کہ پنجگور میں قتل ہونے والے مزدوروں کی موجودگی سے متعلق حکومت لاعلم تھی۔ اس بات کا اعتراف وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے  پیر کو کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں بھی کیا۔
پنجگور کی ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ چند ماہ قبل مزدوروں کی سکیورٹی سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت بھی کی تھی جس میں ضلع میں کام کرنے والے تمام غیر مقامی مزدوروں کی رجسٹریشن اور انہیں سکیورٹی کی فراہمی سے متعلق غور کیا گیا۔
اس اجلاس کے بعد تمام ٹھیکیداروں کو پنجاب، سندھ اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کی رجسٹریشن کرانے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ ضلعی انتظامیہ کے افسر کے مطابق سرکاری تعمیراتی کام کرنے والے ٹھیکیداروں نے تو مزدوروں کی رجسٹریشن کرالی تھی تاہم  نجی گھروں میں کام کرنے والے بیشتر مزدوروں کی رجسٹریشن نہیں کرائی گئی۔
پنجگور پولیس کے ڈی ایس پی صدورو خان لاشاری کا کہنا ہے کہ بعض لوگ  پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کرتے اور اپنے پاس کام کرنے والے مزدوروں کی رجسٹریشن نہیں کراتے۔ نشانہ بننے والے مزدوروں میں بھی نصف نے رجسٹریشن نہیں کرائی تھی۔ جنہوں نے رجسٹریشن کرائی تھی انہوں نے بھی اپنی رہائش اور کام کی جگہ دوسری بتائی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس جو مزدور رجسٹریشن کراتے ہیں، اگر ان کی تعداد 10 سے زائد ہو تو ہم حفاظت کے لیے پولیس اہلکار فراہم کرتے ہیں لیکن اگر تعداد کم ہو تو ہم پولیس اہلکار تعینات کرنے کی بجائے اس علاقے میں  گشت بڑھا دیتے ہیں۔ پولیس اہلکار ہر آدھے اور ایک گھنٹے بعد وہاں گشت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پہلے بھی مزدوروں کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ محتاط رہیں، غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلیں اور اپنی پرائیوٹ سکیورٹی بھی رکھیں۔‘
گزشتہ سال اکتوبر میں کیچ کے ضلعی ہیڈکوارٹرز تربت میں چھ مزدوروں کے قتل کے بعد حکومت نے غیر مقامی مزدوروں کو تھانوں میں رہائش دینے کی ہدایت کی تھی تاہم  اس کے چند دن بعد ہی تربت میں مسلح افراد نے تھانے پر حملہ کرکے مزید چار مزدوروں اور ایک پولیس اہلکار کو قتل کردیا تھا۔
ڈی ایس پی پنجگور کے مطابق ’ہمارے پاس نفری کی کمی رہتی ہے، تھانے میں بھی مزدوروں کو رہائش دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی بندوبست نہیں اس لیے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ مزدور جن علاقوں میں کام کرتے ہیں وہاں گشت بڑھائیں۔ رجسٹرڈ مزدوروں کو گشت پر معمور اہلکاروں کا موبائل نمبر بھی فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ کسی مشکوک سرگرمی کی فوری طور پر پولیس کو اطلاع دے سکیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نشانہ بننے والے مزدور ملا عالم نامی مقامی ٹھیکیدار کے ایک خالی گھر میں رہتے تھے جس میں ایک دو کمرے تھے اور اس کی چار دیواری بھی تھی۔ ملا عالم مزدوروں کو پنجاب سے بلاکر ان سے  پنجگور میں کام کراتا ہے۔ رجسٹریشن نہ کرانے پر ملا عالم کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘

 امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت نے سکیورٹی کو الرٹ رکھا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پولیس نے پنجگور سے غیر مقامی مزدوروں کو واپس بھیجنا شروع کر دیا
پنجگور پولیس کے ایک اہلکار نے اردو نیوز کو بتایا کہ  حالیہ واقعے کے بعد پولیس حکام نے شہر بھر سے غیر مقامی مزدوروں کو پولیس تھانے منتقل کر دیا اور انہیں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر واپس اپنے آبائی علاقوں کو جانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
تاہم ڈی ایس پی پنجگور صدورو خان لاشاری نے اس بات کی تردید کی اور کہا کہ ’واقعے کے بعد مزدور خود واپس جا رہے ہیں۔ ہم نے انہیں رجسٹریشن کے لیے بلایا تھا ان کے فنگر پرنٹس لے رہے ہیں۔ ‘
ان کا کہنا ہے کہ  ویسے بھی مزدور گرمیوں میں آتے ہیں اور سردیوں میں واپس اپنے آبائی علاقوں کو چلے جاتے ہیں۔
سب آپس میں رشتہ دار تھے، پورے گاؤں میں غم اور سوگ
پنجگور واقعے میں نشانہ بننے والے 25 سالہ محمد شفیق کے بھائی محمد حنیف نے ٹیلیفون پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’محمد شفیق کی ایک شادی ہو چکی تھی مگر وہ ناکام ہو گئی اور ان کی ایک بیٹی تھی وہ بھی بیماری کی وجہ سے وفات پا گئی۔ اس کے بعد ہم نے ان کا دوسری جگہ رشتہ طے کیا اور اگلے دو تین مہینے میں ان کی شادی ہونے والی تھی، وہ شادی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے مزدوری کرنے پنجگور گیا تھا کیونکہ وہاں اچھا معاوضہ ملتا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سب خوش تھے کہ شفیق جلد واپس آئے گا تو اس کی شادی  کرائیں گے اور خوشیاں منائیں گے لیکن ہمیں کیا پتہ تھا کہ ان کی لاش ہی اب واپس آئے گی۔ ہمیں پتہ ہوتا تو انہیں بھتیجے ہی نہیں۔‘
محمد حنیف کے مطابق ’محمد شفیق کو ہمارا رشتہ دار عمران اپنے ساتھ لے گیا تھا وہ کافی سالوں سے وہاں کام کر رہا تھا، اسے کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی اس لیے ہم اپنے بھائی کو بھیجنے پر رضا مند ہو گئے تھے۔‘
ان کے بقول اس واقعے میں قتل ہونے والے سارے ہی ہمارے رشتہ دار ہیں اور ایک ہی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ پورے گاؤں میں اس وقت غم  اور سوگ کی فضا ہے۔

شیئر: