وزیر داخلہ محسن نقوی اور حمزہ شہباز کی ملاقاتیں کس طرف اشارہ کرتی ہیں؟
وزیر داخلہ محسن نقوی اور حمزہ شہباز کی ملاقاتیں کس طرف اشارہ کرتی ہیں؟
جمعرات 10 اکتوبر 2024 5:19
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ محسن نقوی ملک کے وزیر داخلہ ہیں اور وہ کسی سے بھی ملاقات کر سکتے ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)
یہ بات ویسے تو مکمل طور پر نارمل ہے کہ ملک کے وزیر داخلہ حکمران جماعت کے ایک رہنما سے ملاقات کر رہے ہیں۔ تاہم ان ملاقاتوں کا سیاق و سباق تھوڑی پیچیدگی پیدا کر ہی دیتا ہے۔
محسن نقوی پنجاب کے ایک سال تک طاقتور ترین نگران وزیر اعلی رہے ہیں۔ ملکی سیاسی حالات کے باعث ان کو ایک منتخب چیف ایگزیکٹو کی طرح کے اختیارات میسر رہے۔
فروری میں عام انتخابات کے بعد صوبے میں مسلم لیگ ن کی حکومت بننے کے بعد انہوں نے نومنتخب وزیر اعلی مریم نواز سے رسمی ملاقات کی تھی۔ جب کہ مریم نواز کو وزیر اعلی کا منصب سنبھالے آٹھ مہینے ہو چکے ہیں۔ ملک کے وزیر داخلہ تقریبا ہر ہفتے لاہور آتے ہیں ان کی رہائش گاہ بھی ہے اور پی سی بی کا ہیڈ آفس بھی۔
تاہم پچھلے ڈیڑھ مہینے میں انہوں نے کچھ وقت کے لیے پنجاب کے وزیر اعلی بننے والے حمزہ شہباز سے ان کی رہائش گاہ پر جاکر دو ملاقاتیں کی ہیں ایک ملاقات 8 اکتوبر منگل کی شام کو ہوئی۔
اس سیاق و سباق میں دو مزید باتوں کا ذکر کرنا بھی لازم ٹھہرتا ہے۔ ایک وہ جب محسن نقوی نے وفاقی وزیر داخلہ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد پنجاب سے اپنی مرضی کے پولیس افسران لینے چاہے اور مریم نواز حکومت نے انہیں ایسا کرنے سے روکا۔ تاہم بعد ازاں علی رضوی نامی پولیس افسر، جو اس وقت اسلام آباد کے آئی جی ہیں، انہیں دے دیے گئے۔
اور دوسری بات اس تاثر کا پیدا ہونا ہے کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے اور مریم نواز کے وزیر اعلی پنجاب بننے کے بعد حمزہ شہباز سیاسی طور پر اپنی ہی پارٹی میں گوشہ نشین ہو چکے ہیں۔ کیونکہ بظاہر ان کے لیے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں رہا۔
تو اس ساری صورت حال کے تناظر میں وزیر داخلہ محسن نقوی اور حمزہ شہباز کے درمیان نئی قربت کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟
اس سوال پر لیگی قیادت تو بات کرنے سے گریزاں ہے تاہم اس صورت حال سے باخبر ایک اہم لیگی رہنما نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے شرط پر بتایا کہ ’اس کی وجہ صرف اور صرف مریم نواز کو پیغام دینا ہے۔ محسن نقوی جب پنجاب کے وزیر اعلی تھے تو ان کے کئی منظور نظر افسران بھی تھے جو اب بالکل لاوارث ہیں۔ محسن نقوی نے کچھ کوششیں کی لیکن وہ کار آمد نہ ہو سکیں۔ تو اب وہ تھوڑا دوبارہ متحرک ہونے کے لیے ایسا سیٹ لگا لیتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حمزہ شہباز کو پچھلے دنوں وزیر اعظم نے نوٹیفائی کیا کہ وہ پنجاب کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی معاونت کریں اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے وزیراعظم ہاؤس اور ان کے درمیان پل کا کردار ادا کریں۔ جس سے حمزہ شہباز اپنے طور پر تھوڑا اپنے لیے راستہ نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ محسن نقوی کا چونکہ یہ تاثر ہے کہ وہ بڑے گھر کے آدمی ہں۔ اس لئے بظاہر وہ ایسی ملاقاتوں سے تھوڑی بہت بے چینی پیدا کرتے ہیں اور اس کا کوئی مقصد نہیں۔‘
تاہم اس حوالے سے جب حمزہ شہباز کے ترجمان عمران گورائیہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی قیاس آرئیوں سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ درست ہیں کہ ملاقاتیں ہوئی ہیں اور اس سے پہلے ماضی میں ان کی مثال نہیں ہے۔ یہ ون آن ون ملاقاتیں تھیں ان میں مجھ سمیت سٹاف کا کوئی بندہ اندر نہیں ہوتا۔ اور نہ اس کا کونٹنٹ کسی کو پتا ہے۔ اس لیے ایسی کسی بھی ٹامک ٹوئیوں سے گریز کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’محسن نقوی ملک کے وزیر داخلہ ہیں اور وہ کسی سے بھی ملاقات کر سکتے ہیں۔ یہ سوال کرنا کہ وہ کیوں ایسا کر رہے ہیں خاص طور پر سیاستدانوں سے تو یہ بالکل ہی عجیب سوال ہو گا۔‘
اس حوالے سے تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ مریم نواز کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں ہونے دیتی ہیں۔ اور یہ بات بیوروکریسی سے لے کر تمام حلقوں میں زبان زد عام ہے۔ جہاں تک محسن نقوی صاحب اور حمزہ شہباز صاحب کی ملاقاتوں کا تعلق ہے تو میرے خیال میں یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ محسن نقوی شریف خاندان کے قریب رہے ہیں۔ وہ نمائندگی تو بڑے گھر کی کر رہے ہیں لیکن انہیں راستہ ن لیگ نے ہی دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ملاقاتیں ذاتی دوستی سے متعلق ہی ہو سکتی ہیں۔‘