Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں کاروں کی فروخت میں اضافے کے باوجود آٹو انڈسٹری مشکلات کا شکار کیوں؟

جولائی تا ستمبر میں کاروں کی فروخت میں 31 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے امداد سومرو کا کہنا ہے کہ کئی برس بعد ایسا سال گزرا ہے جب انہوں نے اپنی آم کی کامیاب فصل کے بعد نئی گاڑی نہیں خریدی ہے، وہ گذشتہ 13 سال سے ہر سال سیزن ختم ہونے پر نئی گاڑی خریدتے آرہے ہیں۔
امداد کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں اب نئی گاڑیوں کی خریداری کے آپشن تو بہت آگئے ہیں لیکن گاڑیوں کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہے کہ نئی گاڑی خریدنا آسان نہیں رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ سال قبل 50 سے 60 لاکھ روپے کی رینج میں اچھی لگژری گاڑی خرید لیا کرتے تھے لیکن اب ان گاڑیوں کی قیمتیں کروڑوں میں ہیں جو ایک منافع بخش کاروبار کرنے والے کے لیے بھی لینا آسان نہیں ہے۔
پاکستان آٹو موٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن ( پاما) نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران گاڑیوں کی فروخت کا ڈیٹا جاری کردیا ہے، پاما کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں جولائی تا ستمبر میں کاروں کی فروخت میں 31 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پاما کے مطابق تین ماہ کے دوران 16 ہزار 21 گاڑیوں کی جگہ 20 ہزار 68 یونٹس فروخت کیے گئے ہیں۔
گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ لیکن انڈسٹری مشکلات کا شکار  
آٹوموٹو سیکٹر کے تجزیہ کار مشہود خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت آٹوموٹو صنعت کے لیے صورتحال بہت تشویش ناک ہے، کیونکہ یہ صنعت چار اہم ستونوں پر کھڑی ہے ٹرک، بسیں، ٹریکٹرز، موٹر سائیکلیں، اور مسافر گاڑیاں۔
ان کا کہنا تھا کہ موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی فروخت میں اضافے سے کسی حد تک انڈسٹری کو سپورٹ ضرور ملا ہے لیکن اب بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
مشہود خان نے مزید کہا کہ اگرچہ سٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ کو کم کیا ہے لیکن اس سے کاروں کی فروخت میں کوئی قابل ذکر اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔
’جب تک شرح سود سنگل ڈیجٹ میں نہیں آتی کار انڈسڑی میں بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے، سال 2025 میں بھی کوئی زیادہ امیدیں نظر نہیں آرہی ہیں۔‘
بینکوں کی لیز پالیسی
 کراچی کے ایک نجی بینک میں گاڑیاں قسطوں پر دینے والے شعبے کے انچارج نجیب اعوان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں کار فنانسنگ کا شعبہ اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ شرح سود میں اضافہ اور مرکزی بینک کی پالیسی کی وجہ سے قسطوں پر گاڑی لینے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

نجیب اعوان کے مطابق گاڑیوں کی قیمتیں اتنی تیزی سے اوپر گئی ہیں کہ خریداروں کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ صورتحال یہ ہے کہ اب تو بڑی کمپنیاں بھی گاڑیاں لیز پر لینے سے پہلے سوچ رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں درجنوں کے حساب سے شعبے میں کام کرنے والے افراد چند افراد کی ٹیم تک محدود ہوگئے ہیں۔
نجیب اعوان کے مطابق ایک جانب گاڑیوں کی قیمتیں اتنی تیزی سے اوپر گئی ہیں کہ خریداروں کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں دوسری جانب لیز پر گاڑی دینے کی شرائط نے بھی خریداروں کو گاڑیاں خریدنے سے باز رکھا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب تو صورتحال یہ ہے کہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں بنا انٹرسٹ کے خود لیز پر گاڑیاں دے رہی ہیں، ایسے میں بینک کے دیگر ضروری پروسس کو مکمل کرنے والوں کو گاڑیاں خریدنا مہنگا پڑ رہا ہے، اور وہ کوشش کررہے ہیں کہ بینک کے بجائے کار ساز کپمنیوں یا پھر شو رومز سے گاڑیاں قسطوں پر حاصل کریں جہاں پروسس بھی آسان ہے اور قیمت بھی کم ہے۔
گاڑیاں فروخت کرنے والی کمپنیاں بھی بنا سود گاڑی آفر کررہی ہیں
کِیا موٹرز نے صارفین کے لیے بغیر سود کے انسٹالمنٹ پلان متعارف کروایا ہے۔ لکی موٹرز کے مطابق اب گاڑی خریدنے کے لیے 50 فیصد پیشگی قیمت دے کر باقی رقم کو 18 ماہ کی آسان اقساط میں ادا کر سکتے ہیں، اور اس پر کسی بھی قسم کا سود نہیں لیا جائے گا۔
کمپنی کے مطابق گاڑی کی اصل قیمت 75 لاکھ 50 ہزار روپے ہے، جسے آپ 37 لاکھ 75 ہزار روپے کی پیشگی رقم ادا کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔ باقی 50 فیصد رقم یعنی 37 لاکھ 75 ہزار روپے کو آپ 18 ماہ کی اقساط میں ادا کریں گے، جس کی ماہانہ قسط 2 لاکھ 9 ہزار 722 روپے بنتی ہے۔

پاما کے سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ موٹر سائیکل انڈسٹری میں دوبارہ بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے (فوٹو: اٹلس ہنڈا)

کِیا موٹرز کی مختلف ماڈلز کی قیمتیں بھی صارفین کے لیے واضح کر دی گئی ہیں، کیا سپورٹیج الفا کی قیمت 73 لاکھ روپے، کیا سپورٹیج ایف ڈبلیو ڈی کی قیمت 77 لاکھ 40 ہزار روپے ہے، اسی طرح کیا سپورٹیج اے ڈبلیو ڈی کی قیمت 84 لاکھ 70 ہزار روپے ہے، کیا سپورٹیج بلیک لیمیٹڈ ایڈیشن کی قیمت 90 لاکھ روپے ہے اور کیا سپورٹیج کلیئر وائٹ لیمیٹڈ ایڈیشن کی قیمت بھی 90 لاکھ روپے ہے۔
واضح رہے کہ اس قبل رواں سال مئی کے مہینے میں سوزوکی موٹرز، انڈس موٹرز اور ہنڈا کی جانب سے بھی اپنی اپنی گاڑیوں کی قیمت میں کمی کی گئی تھی۔
سوزوکی موٹرز نے آفر دیتے ہوئے اپنی گاڑی سوئفٹ کی قیمت میں 7 لاکھ روپے تک کمی کی تھی۔
موٹر سائیکل کی صنعت میں دوبارہ بہتری
پاما کے سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ موٹر سائیکل انڈسٹری میں دوبارہ بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے، کیونکہ یہ طبقہ درمیانے طبقے میں مقبولیت رکھتا ہے۔ ستمبر 2024 میں دو اور تین پہیوں کی گاڑیوں کی فروخت میں 19 فیصد اضافہ ہوا، جو کہ 320,187 یونٹس تک پہنچ گئی۔
پاما کے چند دیگر اہم اعداد و شمار کے مطابق فارم ٹریکٹرز کی فروخت میں 56.9 فیصد کمی ہوئی، جو کہ 5,206 یونٹس تک پہنچ گئی۔ کسانوں کو نئے ٹریکٹرز خریدنے میں مشکلات کا سامنا ہے، جو کہ زراعت میں کم پیداوار اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مزید بڑھ گئی ہیں۔ مجموعی طور پر، پاکستان کی آٹوموٹو انڈسٹری کو بحران سے نکلنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ صنعت کو استحکام مل سکے۔
خصوصاً ٹریکٹرز کی فروخت میں جون میں وفاقی بجٹ کے اعلان کے بعد نمایاں کمی آئی ہے، جب حکومت نے ٹریکٹرز پر سیلز ٹیکس عائد کیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں اصل سامان تیار کرنے والی کمپنیوں (او ای ایم) کو بہت بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس سے ان کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔

پاما کے مطابق صنعت سیاسی عدم استحکام، معاشی چیلنجز اور کساد بازاری کا سامنا کر رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

مشہود خان نے کہا کہ چونکہ پاکستان ایک زرعی معیشت ہے، حکومت نے کسانوں کے لیے دوستانہ پالیسیوں کا آغاز کیا ہے تاکہ اس شعبے کو فروغ دیا جا سکے، لیکن ٹریکٹر انڈسٹری جس کا اہم کردار ہو سکتا تھا، مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شعبے کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔
ٹرک اور بسوں کی فروخت میں اضافہ
جہاں تک ٹرکوں اور بسوں کی فروخت کا تعلق ہے، سڑکوں اور موٹر ویز کی تعمیر کے باوجود اس شعبے کی فروخت مطلوبہ سطح پر نہیں پہنچی۔ تاہم پاما کے مطابق ٹرکوں اور بسوں کی فروخت میں بالترتیب 74.7 فیصد اور 60.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، اور یہ فروخت 772 یونٹس اور 154 یونٹس تک پہنچ گئی ہے۔
سیاسی عدم استحکام اور معاشی مشکلات
پاما کے مطابق اگرچہ پچھلے سال کے مقابلے میں کچھ بہتری آئی ہے، لیکن یہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ صنعت سیاسی عدم استحکام، معاشی چیلنجز اور کساد بازاری کا سامنا کر رہی ہے۔ مشہود خان کے مطابق جب تک دیگر معاون صنعتیں جیسے کہ ٹیکسٹائل، چمڑے اور فارماسیوٹیکل انڈسٹریز نہیں بڑھتیں، آٹوموٹو انڈسٹری کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

شیئر: