Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایس سی او اجلاس کے موقع پر پی ٹی آئی نے ڈی چوک میں احتجاج کی کال کیوں دی؟

اس سے پہلے تحریک انصاف نے 11 سے 14 اکتوبر تک پنجاب کے مختلف شہروں میں احتجاج کی کال دے رکھی تھی (فوٹو اے ایف پی)
تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے 15 اکتوبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں ایک مرتبہ پھر احتجاج کی کال دے دی ہے۔ یہ کال جمعے کی شام اجلاس میں پی ٹی آئی رہنماوں نے مشاورت کے بعد دی ہے۔
اس سے پہلے تحریک انصاف نے 11 سے 14 اکتوبر تک پنجاب کے مختلف شہروں میں احتجاج کی کال دے رکھی تھی۔ اور کہا گیا تھا کہ 14 تاریخ کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا اسلام آباد میں دوبارہ کال کب دی جائے۔
تاہم جمعے کی شام پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے پنجاب کے مختلف شہروں کے لیے دی گئی احتجاجی کال واپس لیتے ہوئے تمام ورکرز کو 15 اکتوبر کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کر دی ہے۔ یہ کال ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب ٹھیک 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں پہلی مرتبہ منعقد ہو رہا ہے۔ اور اسی دن چینی وزیر اعظم بھی پاکستان میں پہنچ رہے ہوں گے۔
تحریک انصاف کے سابق رہنما فواد چوہدری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر احتجاج کی خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ بندر کے ہاتھ میں ماچس کی ایک اور مثال ہے۔‘
تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے اس احتجاج کی وجہ یہ قرار دی ہے کہ عمران خان سے ان کے وکلا اور خاندان کے افراد کو ملنے پر پابندی ہے۔ یہ احتجاج ان کے بنیادی حقوق بحال کروانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ پنجاب کی وزارت داخلہ نے چند روز قبل سکیورٹی تھریٹ کے باعث اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی ملاقات پر 18 اکتوبر تک پابندی عائد کر رکھی ہے۔
اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ملک کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ’تحریک انصاف پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھوں کھیل رہی ہے۔ اور ان کا صرف اور صرف یہ مقصد ہے کہ پاکستان کسی طریقے سے پٹری پر واپس نہ آ جائے۔‘ جبکہ وزیر اطلاعات پاکستان عطااللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی تیاریاں مکمل ہیں اور کسی شرپسند کو اسے خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
دوسری طرف حکومت نے ایک خصوصی حکم نامے کے تحت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی سکیورٹی فوج کے حوالے کر رکھی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف کو سوچنا ہو گا کہ وہ ایسے فیصلے کیوں کرتی ہے جو اسے مزید سیاسی تنہائی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ انہیں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا احتجاج جو براہ راست ریاست کو نقصان پہنچانے کا باعث ہو وہ سیاسی نہیں تخریبی ہے۔ ایس سی او کسی سیاسی جماعت کی تقریب نہیں ہے۔ اس میں بارہ ملکوں کے سربراہان آ رہے ہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی ایونٹ ہے۔ اور پاکستان کا ایونٹ ہے۔ یہ ایک جذباتی فیصلہ ہے جس کا صرف نقصان ہوگا۔‘

 ذلفی بخاری نے کہا ہے کہ ’ہمارا مقصد کسی غیر ملکی دورے کا سبوتاژ کرنا نہیں ہے۔‘ (فوٹو اے ایف پی)

دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 2014 میں جب تحریک انصاف نے اسلام آباد میں ایک تاریخی دھرنا دیا تھا تو اس وقت بھی چین کے صدر شی جن پنگ پاکستان میں سی پیک کی بنیاد رکھنے آ رہے تھے اس دھرنے کے باعث انہیں اپنا شیڈیول تبدیل کرنا پڑا تھا۔
تحریک انصاف کے بین الاقوامی میڈیا کوارڈینیٹر ذلفی بخاری نے تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہمارا مقصد کسی غیر ملکی دورے کا سبوتاژ کرنا نہیں ہے۔ لیکن یہ غیر قانونی حکومت یہ جعلی تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے جیسے ملک میں حالات نارمل ہیں۔ ایسا ملک جہاں سابق وزیراعظم اپنی اہلیہ کے ساتھ غیر قانونی طور پر بند ہے۔ اب ان کے لیے ڈاکٹر، وکلا اور خاندان کی رسائی بند کر دی گئی ہے۔ جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی جعلی کاروبار مملکت کو چلانے سے پہلے گھر کے معاملات کو ٹھیک کرنا بھی ضروری ہے۔ ہم صرف یہ کہ رہے ہیں کہ ایک ڈاکٹر اور ایک بہن کو ملنے کی اجازت نہ دیا جانا غیر قانونی ہے۔ اور دنیا کو اس کا پتا لگنا چاہیے۔‘
پی ٹی آئی نے یہ کال ایسے وقت میں بھی دی ہے جب خیبرپختونخوا میں ان کے وزیراعلی اسمبلی فلور پر کہ چکے ہیں کہ ’چند دنوں میں حالات میں بہتری آئے گی۔‘ جبکہ وہ ایک گرینڈ جرگے کی صدارت بھی کر چکے ہیں جس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور گورنر کے پی کے فیصل کریم کنڈی کے علاوہ این پی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی شامل تھیں۔

شیئر: