Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹاٹا کی ملکیت رہنے والا ’جوبلی ہیرا‘: جس نے انڈیا کی صنعتی تاریخ کا رُخ موڑ دیا

1966 میں جوبلی جنوبی افریقہ واپس آیا جہاں اسے جوہانسبرگ کے ڈی بیئر ڈائمنڈ پویلین میں دکھایا گیا۔
آپ نے اگر سب سے زیادہ کسی ہیرے کا نام سنا ہوگا تو وہ کوہ نور ہیرا ہے جس نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے اور جس کی اپنی ایک تاریخ رہی ہے۔ لیکن اس ہیرے کو بدقسمتی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے جو ان دنوں برطانیہ کے خزانے کا حصہ ہے اور ملکہ کے تاج کی زینت ہے۔
لیکن ایک ہیرا ایسا بھی ہے جس نے نہ صرف بے شمار ہندوستانیوں کو روزگار فراہم کیا بلکہ اس نے ہندوستان کی صنعتی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس ہیرے کو جوبلی ہیرے کے نام سے جانا جاتا ہے جو تقریبا تین دہائی تک انڈیا کے سب سے بڑے صنعتی گھرانے ٹاٹا کی ملکیت رہا ہے۔
یہ ایک زمانے تک دنیا کا سب سے بڑا ہیرا تھا اور یہ جنوبی افریقہ کی کان میں پایا گیا تھا۔ اس کا نام جنوبی افریقہ کی اورینج فری سٹیٹ کے سربراہ کے نام پر رٹز ڈائمنڈ رکھا گیا تھا کیونکہ یہ وہیں کی کان سے برآمد ہوا تھا۔
لیکن پھر 1897 میں ملکہ وکٹوریہ کی 60 ویں سالانہ تاجپوشی کے موقع کے لحاظ سے اس کا نام جوبلی ڈائمنڈ رکھا گیا۔

محبت کا تحفہ

اسے ٹاٹا کمپنی کی بنیاد ڈالنے والے جمشید جی نوشیرواں جی ٹاٹا کے بیٹے دوراب جی ٹاٹا نے ایک لاکھ پاؤنڈ میں حاصل کیا اور اسے اپنی بیگم مہربائی ٹاٹا کو شادی کے تحفے کے طور پر عطا کیا جسے وہ خاص مواقع اور شاہی تقریبات میں پہنا کرتی تھیں۔
یہ ہیرا اگرچہ انتہائی بیش قیمت تھا لیکن اس کا کوئی رنگ نہیں تھا لیکن حال ہی میں اس کے رنگ کو ای کلر کا ٹیگ دیا گیا ہے۔
ٹاٹا ٹرسٹ کی ویب سائٹ کے مطابق 14 فروری 1898 کو خوبصورت مہربائی کی جمشید جی ٹاٹا کے بڑے بیٹے دوراب جی ٹاٹا سے شادی ہوئی۔
دوراب جی نے 1900 میں اپنی نوبیاہتا دلہن کو 245.35 قیراط کا جوبلی ہیرا تحفے میں دیا جسے مہربائی اہم عوامی تقریبات میں شرکت کے دوران فخر سے پہنتی تھیں۔ تاہم، بعد میں 1920 کی دہائی میں مہربائی نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا بیش قیمتی ہیرا ٹاٹا آئرن اینڈ سٹیل کمپنی لمیٹڈ (ٹسکو) کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے عطیہ کر دیا۔
نیچرل ڈائمنڈس ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ کے مطابق 1924 میں ٹاٹا سٹیل مالی بحران کا شکار ہو گئی اور وہ سستے جاپانی سٹیل کا مقابلہ کرنے میں ناکام نظر آنے لگی۔

دوراب جی نے 1900 میں اپنی نوبیاہتا دلہن کو 245.35 قیراط کا جوبلی ہیرا تحفے میں دیا۔

اسے قرضوں کی ادائیگی اور کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین کی اجرت کے لیے دو کروڑ روپے کی فی الوقت ضرورت تھی جو اس وقت ایک بہت بڑی رقم تھی۔
'یہ وہ وقت تھا جب سر دوراب جی نے امپیریل بینک آف انڈیا (اب اسٹیٹ بینک آف انڈیا) کے پاس جوبلی ہیرا رہن رکھا اور کچھ دیگر زیورات کے ساتھ ایک کروڑ روپے کا قرض حاصل کیا۔ یہ رقم قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کی گئی اور آخر کار ٹاٹا سٹیل ملک کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ اثر انگیز کمپنیوں میں سے ایک بن گئی، جس نے ہندوستان کو عالمی اقتصادی میدان میں ایک طاقتور کھلاڑی کے طور پر قائم کرنے میں مدد کی۔'
18 جون 1931 کو مہربائی کی کینسر سے موت ہو گئی جبکہ اس کے اگلے سال تین جون 1932 کو دوراب جی ٹاٹا بھی چل بسے۔ ان کی موت کے بعد سر دوراب جی ٹاٹا میموریل ٹرسٹ قائم کیا گیا جس میں دوسرے جواہرات کے ساتھ جوبلی ہیرے کی رقم کو بھی شامل کیا گیا اور اس ٹرسٹ کی مدد سے بعد میں انڈیا کا پہلا چیریٹیبل کینسر ہسپتال وجود میں آیا۔
نیچر کے مضمون کے مطابق ’یہ ہیرا واحد بیش قیمتی چیز نہیں تھی جسے ٹرسٹ میں دیا گیا تھا۔ بہت سے دوسرے قیمتی پتھروں کے علاوہ 40 نیلے ہیروں کا ایک ہار بھی تھا جو پلاٹینم میں جڑا ہوا تھا، جس کا وزن 103 قیراط تھا وہ ٹرسٹ میں دیا گیا۔ اور ٹرسٹ کی نگرانی میں آخرکار بمبئی (اب ممبئی) میں ایک تاریخی یادگار ٹاٹا میموریل ہسپتال قائم کیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز اور ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ کو بھی فنڈ فراہم کیا۔
یہی نہیں دوراب جی ٹاٹا نے ریاست بہار (اب جھارکھنڈ ریاست میں آتا ہے) میں جو جمشید پور نام کا شہر بسایا تھا وہاں لیڈی مہربائی کے نام سے ایک کینسر ہسپتال بھی بنایا گیا ہے۔
مہربائی کھیلوں کی بے حد شوقین تھیں اور لان ٹینس میں انھوں نے دوراب جی کے ساتھ شرکت کی اور کئی میڈلز اور ٹورنامنٹ میں کامیابی حاصل کی۔ وہ ہندوستان میں خواتین کی فلاح و بہبود کے شعبے میں کام کرنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ وہ بابمے پریزیڈنسی وومن کونسل کی بانیوں میں شامل تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان اس وقت تک عظیم ملک نہیں بن سکتا جب تک کہ وہاں کی خواتین کو ضروری تربیت نہیں دی جاتی اور انھیں جس شعبے میں وہ اچھا کر سکتی ہیں ان میں اچھا کرنے کی آزادی نہیں دی جاتی۔

14 فروری 1898 کو خوبصورت مہربائی کی جمشید جی ٹاٹا کے بڑے بیٹے دوراب جی ٹاٹا سے شادی ہوئی۔

مشہور ہیرے کی ویب سائٹ پر ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ٹاٹا کے پاس سے یہ ہیرا کارٹئیر میں فروخت کے لیے بھیجا گیا جہاں دسمبر 1935 میں اسے تاریخی ہیروں کی نمائش میں نصب کر دیا گیا۔ کارٹیئر نے پہلے بڑودہ کے گائیکوار کی طرف خریداری کے لیے دیکھا جنہوں نے 1928 میں کارٹئیر کو قیمتی پتھروں کی خریداری پر اپنا واحد مشیر مقرر کیا تھا۔ ان کے نمائندے جوبلی  75,000 برطانوی پاونڈ میں فروخت کرنے کے لیے تیار تھے لیکن بڑودہ میں ٹریژری ڈیپارٹمنٹ سے خریداری کے لیے اجازت طلب کرنے کے بعد گائیکوار نے ہیرا نہ خریدنے کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ 1937 میں کارٹئیر نے جوبلی کو پیرس کے صنعت کار اور فنون کے سرپرست ایم پال لوئس ویلر کو فروخت کر دیا۔
اس کے بعد ہیرے کی سابقہ ترتیب کو کئی ڈائمنڈ بیگویٹ کے ساتھ بروچ میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور اب یہ شش زاویائی ستارے یا اسٹائلائزڈ کچھوے سے مشابہت رکھنے لگا تھا۔
مسٹر ویلر جوبلی ہیرے کو نمائشوں میں بطور قرض دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ اس طرح 1960 میں واشنگٹن کے سمتھسونین انسٹی ٹیوٹ میں اور دوسری بار اسی سال دسمبر میں جنیوا میں منعقد کی گئی نمائشوں میں اسے دیکھا گیا۔
1966 میں جوبلی جنوبی افریقہ واپس آیا جہاں اسے جوہانسبرگ کے ڈی بیئر ڈائمنڈ پویلین میں دکھایا گیا۔
مسٹر رابرٹ موواڈ نے اس کے بعد سے جوبلی کو خرید لیا جو اب ان کے جواہرات کے عظیم ذخائر میں سب سے بڑا اور قیمتی ہیرا ہے۔

شیئر: