چیئرمین بیرسٹر گوہر کے لیے پی ٹی آئی کے اندر اپنی بات منوانا مشکل ہو رہا ہے؟
چیئرمین بیرسٹر گوہر کے لیے پی ٹی آئی کے اندر اپنی بات منوانا مشکل ہو رہا ہے؟
جمعہ 18 اکتوبر 2024 6:23
خرم شہزاد، اردو نیوز۔ اسلام آباد
عمران خان کی بہن نورین نیازی نے بیرسٹر گوہر کے بیان پر عدم اطمینان ظاہر کیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان تحریک اںصاف (پی ٹی آئی) میں ان دنوں اندرونی اختلافات کی خبریں تواتر سے آ رہی ہیں۔
ایک طرف مقامی میڈیا میں علی امین گنڈاپور اور حماد اظہر کے مبینہ اختلاف پر تبصرے ہو رہے ہیں تو دوسری طرف چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اپنے ایک بیان کی وجہ سے پارٹی رہنماؤں کی تنقید کی زد میں ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے حکومت کے نامزد کردہ ڈاکٹروں کی طرف سے عمران خان کے طبی معائنے کے بعد جاری کی جانے والی رپورٹ کو تسلی بخش قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس رپورٹ کے مطابق عمران خان بالکل تندرست ہیں۔
اس کے بعد سے ان پر مسلسل تنقید کی جا رہی ہے اور نہ صرف پارٹی کے ورکرز بلکہ عمران خان کی ہمشیرہ نورین نیازی نے بھی کہا ہے کہ وہ یہ موقف تسلیم نہیں کرتیں۔
نورین نیازی نے پاکستان کے نیوز چینل اے آر وائے سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر کے عمران خان کی صحت کے بارے میں اطمینان پر تنقید کی اور کہا کہ ’انہوں نے تو شاید حکومت کی جاری کردہ طبی رپورٹ کو مان لیا لیکن کوئی اور نہیں مان رہا۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’آپ سروے کروا کر دیکھ لیں کہ پمز (پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز) کے ڈاکٹرز پر کسی کو اعتبار ہے، کوئی بھی نہیں کہے گا کہ ہے۔ میں بطور خاندان بات کر رہی ہوں، گوہر صاحب بطور سیاستدان بات کر رہے ہیں، میرے جذبات اور بیرسٹر گوہر کے جذبات میں فرق ہو گا اور میں اس بات پر بہت مضطرب ہوں۔‘
نورین نیازی نے کہا کہ ’مجھے نہیں پتہ کو گوہر صاحب کے کیا احساسات ہیں وہ سامنے بتائیں گے تو پتہ چلے گا لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ کارکن بہت پریشان ہیں، وہ سارے تو اسلام آباد پہنچنے کے لیے اور آنسو گیس اور ڈنڈے کھانے کے لیے تیار ہیں۔‘
نورین نیازی کے اس بارے میں اظہار خیال سے پہلے ہی کارکن بیرسٹر گوہر کو طبی رپورٹ تسلیم کرنے پر ان کو برا بھلا کہنا شروع ہو گئے تھے اور اب تک ان کی مختلف سوشل میڈیا پوسٹس کے نیچے ان پر تنقید کر رہے ہیں اور انتہائی جارحانہ زبان استعمال کر رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق یہ صورتحال جہاں ایک طرف دباو کا شکار ہونے والی جماعت کی اندرونی شکست و ریخت کی عکاسی کر رہی ہے وہیں بیرسٹر گوہر کی قیادت کے قابل قبول ہونے کے بارے میں بھی سوال اٹھا رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار احمد اعجاز کے مطابق عمران خان کی قید کا دورانیہ جیسے جیسے طویل ہوتا جارہا ہے ویسے ویسے پارٹی کی قیادت پر کارکنان کی جانب سے دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کارکنان کا خیال ہے کہ موجودہ قیادت اس قابل نہیں کہ وہ عمران خان کے طرز سیاست کی آئینہ دار ہو سکے۔ پی ٹی آئی کارکنان کی تربیت میں احتجاجی سیاست کا رنگ زیادہ گہرا ہے، کارکن وہ رنگ بیرسٹر گوہر میں نہیں دیکھ پا رہے۔‘
احمد اعجاز سمجھتے ہیں کہ حالیہ کئی واقعات کی بدولت پی ٹی آئی کارکنان بہت زیادہ مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔
’مثال کے طور گنڈا پور کا دوبار اور بالخصوص آخری بار اسلام آباد میں غائب ہو جانا، عمران خان کی بہنوں کا گرفتار ہونا، ان کی ملاقاتوں پر پابندی لگنا، سرکاری ڈاکٹروں کی جانب سے ان کا طبی معائنہ کرنا، اور بیرسٹر گوہر کا شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر احتجاج موخر کرنا۔‘
’پی ٹی آئی کارکنوں کو یہ یقین کامل ہے کہ عمران خان کے مزاج میں پیچھے ہٹنا نہیں، اس لیے وہ موجودہ قیادت کو بھی بیک فٹ پر جاتا نہیں دیکھنا چاہتے اور اس لیے ان پر تنقید کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی قیادت بھی تقسیم ہے اور وہ خود کو موجودہ سیٹ اپ میں کسی قابل ذکر مقام پر نہیں دیکھ رہے، اس لیے وہ ایک دوسرے پر تلخ ہو رہے ہیں۔‘
احمد اعجاز کے خیال میں پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے بہت سوچ سمجھ کر گنڈا پور کو وزیراعلٰی بنایا تھا، مگر ان کی طرف سے بھی اس طرح کا جارحانہ رویہ نہیں ملا جس کی وجہ سے انہیں یہ منصب ملا تھا۔
’کارکنان جب گھروں سے باہر نکلیں اور ان کی قیادت کرنے والا کوئی نہ ہو یا وہ گھروں سے نکلنا چاہیں اور ان کو کوئی نکالنے والا ہی نہ ہو تو پھر وہ کیا کریں گے؟ صاف ظاہر ہے موجودہ قیادت کو کوسیں گے۔‘
شعبہ سیاسیات کے سینیئر پروفیسر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ موجودہ پی ٹی آئی قیادت اتنی موثر نہیں ہے جتنا کہ اس جماعت کے بانی چیئرمین عمران خان ہیں اور دباؤ کے ماحول میں پارٹی کی صف دوم کی قیادت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں۔
‘پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت میں حسد بھی ہے، بیرسٹر گوہر کو اپنی بات منوانے کے لیے مسائل کا سامنا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ پارٹی کی صف اول کی قیادت موجود نہیں ہے اور اس کا رہنما جیل میں ہے۔‘
’پاکستان میں جب سیاسی جماعتیں زیر عتاب ہوتی ہیں تو ان میں اس طرح کے جھگڑے ہوتے ہیں اور پی ٹی آئی میں بھی اس طرح کے جھگڑے اس وقت تک چلتے رہیں گے جب تک عمران خان رہا نہیں ہو جاتے۔‘
’بیرسٹر گوہر کے پاس اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے بھی کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘