Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئینی ترمیم کی پارلیمان سے منظوری کا معاملہ، حکومت آج پھر متحرک

آج سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس ہوں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم کو پارلیمان سے منظور کروانے کے لیے آج دوبارہ بھرپور کوششیں ہوں گی۔ اس سلسلے میں سینیٹ کا اجلاس آج سہ تین بجے جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس شام چھ بجے طلب کیا گیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس بھی آج اڑھائی بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں بلایا گیا ہے جس میں مجوزہ آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری لینے کا امکان ہے۔
تاہم مجوزہ آئینی ترمیم کی کابینہ سے منظوری سے قبل حکومت کو اپوزیشن جماعتوں بالخصوص جمیعت علمائے اسلام ف کی جانب سے گرین سگنل درکار ہو گا۔ اگر جے یو آئی اور پی ٹی آئی آئینی ترمیم پر آج بھی رضامند نہ سکیں تو حکومت صرف اتحادی جماعتوں کے بل بوتے پر ہی آئینی ترمیم دونوں ایوانوں میں پیش کر سکتی ہے۔
دوسری جانب آج دن میں پاکستان تحریک انصاف کے وفد کی مولانا فضل الرحمان سے اہم ملاقات ہونا بھی طے ہے جس میں پی ٹی آئی کا وفد مولانا فضل الرحمان کو آئینی مسودے پر اپنی حتمی رائے سے آگاہ کرے گا۔
سینیٹ و قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے میں آئینی ترمیم کا بل شامل نہیں
مجوزہ آئینی ترمیم کے معاملے پر سینیٹ سیکریٹریٹ نے سینیٹ کا اجلاس آج سہ پہر تین بجے طلب کر رکھا ہے جبکہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے قومی اسمبلی کا اجلاس آج شام چھ بجے طلب کیا ہے۔
آج ہونے والے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کے ایجنڈوں میں 26ویں آئینی ترمیم کے بل کو شامل نہیں کیا گیا تاہم پارلیمانی حلقوں کا کہنا ہے آئینی ترمیمی بلز ضمنی ایجنڈا کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی وفد اور مولانا فضل الرحمان کی اہم ملاقات
پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس سے قبل آج سہ پہر پی ٹی آئی وفد کی مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ایک اہم ملاقات ہونے کا بھی امکان ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف مجوزہ آئینی مسودے پر جمیعت علمائے اسلام کو اپنی حتمی رائے سے آگاہ کرے گی۔
یاد رہے گزشتہ رات مولانا فضل الرحمان نے پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر ہی آئینی ترمیم پر کوئی حتمی فیصلہ آج تک ملتوی کیا تھا۔

قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی تعداد 80 اور پشتونخوا میپ کا ایک رکن ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی غیرشفاف اور متنازع ترین انداز میں دستور میں ترمیم کے عمل کا حصہ نہیں بنے گی۔
اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں آئینی ترمیم پر رائے شماری یا ووٹنگ کے عمل کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔
پارلیمان میں نمبر گیم کیا ہے؟
سینیٹ اور قومی اسمبلی میں مجوزہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ابھی تک عددی اکثریت واضح نہیں ہوئی۔ حکومت قومی اسمبلی میں نمبر گیم پورا ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے تاہم حکومت کو اتحادی جماعتوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ جمیعت علمائے اسلام سمیت پی ٹی آئی کے کچھ ایم این ایز کے ووٹ بھی چاہیے ہوں گے۔ اس کے علاہ حکومت کو ایوان بالا میں بھی نمبرز پورے کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔
26ویں آئینی ترمیم حکومت کے لیے قومی اسمبلی میں حکومتی اتحادی اراکین کی تعداد 215 ہے جبکہ آئینی ترمیم کے لیے درکار224 ووٹ درکار ہیں۔
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے پاس 111، پیپلزپارٹی 70، ایم کیوایم پاکستان 22، ق لیگ 5 اوراستحکام پاکستان پارٹی کے 4 اراکین شامل ہیں جبکہ نیشنل پارٹی، ضیا لیگ اور بی اے پی کا ایک ایک رکن بھی حکومت کے پلڑے میں ہیں جس کے بعد مجموعی تعداد 215 بنتی ہے۔
آئینی ترمیم کے لیے جمعیت علمائے اسلام کے آٹھ ووٹ اہمیت کے حامل ہیں۔ حمایت ملنے پر یہ تعداد 223 تک پہنچ جاتی ہے لیکن حکومت کو مطلوبہ نمبرز پورے کرنے کے لیے پی ٹی آئی یا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ممبر کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف حمایت یافتہ آزاد ارکان کی تعداد 8 ہے جبکہ قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی تعداد 80 ہے۔ بی این پی مینگل، ایم ڈبلیو ایم اور پشتونخوا میپ کا ایک ایک رکن بھی قومی اسمبلی میں موجود ہے۔

حکومت کو اپوزیشن جماعتوں بالخصوص جمیعت علمائے اسلام ف کی جانب سے گرین سگنل درکار ہو گا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

دوسری جانب ایوان بالا (سینیٹ) میں حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے 64 ووٹ درکار ہوں گے۔ اس وقت حکومتی اتحاد کے پاس 54 ووٹ موجود ہیں۔ جے یوآئی (ف) اور آزاد اراکین کی حمایت ہی سے آئینی ترمیم ممکن ہو سکے گی۔
سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 اورایم کیوایم کے 3 ارکان موجود ہیں۔ حکومتی بنچز پر ہی 2 آزاد سینیٹرز بھی براجمان ہیں جس سے تعداد 54 تک پہنچ جاتی ہے۔ تاہم 2 آزاد سینیٹر کی حمایت کے بعد بھی حکومت کو مزید 9 ووٹ درکار ہوں گے۔
سینیٹ کی اپوزیشن جماعتوں میں سے جے یو آئی ف کے پاس 5 اور اے این پی کے پاس تین ووٹ موجود ہیں جبکہ مسلم لیگ ق، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کا ایک ایک سینیٹر بھی اپوزیشن بینچز پر براجمان ہے۔
ایوان بالا میں تحریک انصاف کے 17، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین کا ایک ایک سینیٹر موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایک آزاد سینیٹر بھی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہے۔

شیئر: