Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نلکا بند ہونے پر بھی سڑک بند‘ بلوچستان میں آئے روز سڑکوں کی بندش سے لوگ پریشان

ذاتی نوعیت کے مسائل پر بھی اہم قومی شاہراہوں کو کئی کئی دنوں تک بند رکھا جاتا ہے (فوٹو: یوسف مری)
’کوئی کسی کا ادھار واپس نہ کررہا ہو یا کسی کے گھر کے نلکے میں پانی نہ آرہا ہو تو وہ سڑک بند کر دیتا ہے اور ہماری  پھلوں، سبزیوں اور جلد خراب ہونے والی مصنوعات سے لدی گاڑیاں کئی کئی دنوں تک سڑکوں پر پھنسی رہتی ہیں، جس سے نہ صرف تاجروں بلکہ ہم ٹرانسپورٹرز کو بھی لاکھوں کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔‘
عزیز اللہ  بلوچستان میں ٹرانسپورٹ کے شعبے سے منسلک ہیں ان کے کئی ٹرک روزانہ  بلوچستان اور ملک کے دیگر صوبوں کے درمیان تازہ پھلوں، سبزیوں اور تجارتی سامان کی ترسیل کرتے ہیں مگر گزشتہ کچھ مہینوں سے انہیں آئے روز بلوچستان میں احتجاج یا کسی نہ کسی وجہ سے سڑکوں کی بندش سے پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔
 سڑکیں بند کرکے حکومت سے مطالبات منوانا یوں تو ملک بھر میں معمول کی بات ہے، لیکن بلوچستان میں بڑے بڑے مطالبات سے لے کر معمولی اور ذاتی نوعیت کے مسائل پر بھی اہم قومی شاہراہوں کو کئی کئی دنوں تک بند رکھا جاتا ہے۔
صرف گذشتہ دو ماہ کے دوران کوئٹہ، مستونگ، قلات، سوراب، خضدار، چاغی، تربت، پنجگور، گوادر، لسبیلہ، لورالائی، قلعہ عبداللہ، چمن، ژوب، اور موسیٰ خیل سمیت بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں تقریباً ہر بڑی سڑک کو ایک سے زائد بار بند رکھا گیا۔
سینیٹرز کی گمشدگی، قاتلوں کی گرفتاری، لاپتہ افراد کی بازیابی، بدامنی اور ڈکیتی کی وارداتوں، اساتذہ کی غیر حاضری، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، حکومت کی جانب سے تجاوزات پر کارروائی، ایرانی تیل کی سمگلنگ کی اجازت نہ دینے اور لین دین سمیت چھوٹے بڑے مسائل کے حل کے لیے سیاسی، مذہبی و قوم پرست جماعتوں، لاپتہ افراد کے لواحقین، قبائلی گروہوں، مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں اور  مقامی افراد کی جانب سے احتجاجاً قومی شاہراہوں کو بند رکھا گیا۔
 آل بلوچستان گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے عہدے دار عزیز اللہ کہتے ہیں کہ پہلے مہینے میں ایک آدھ بار سڑکیں بند ہوتی تھیں۔ بڑے واقعات یا اہم مسائل پر بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے قومی شاہراہوں پر احتجاج کیا جاتا تھا، لیکن اب تو گلی محلے کے مسائل حل نہ ہونے پر بھی لوگ سڑکوں پر آکر دھرنا دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے کئی کئی روز اہم قومی شاہراہیں بند رہتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ دنوں لورالائی اور موسیٰ خیل میں صرف اس بات پر کئی دنوں تک بلوچستان کو پنجاب سے ملانے والی صوبے کی سب سے اہم شاہراہ اس لیے بند رہی کہ ایک شخص دوسرے کا ادھار نہیں دے رہا تھا جس پر با اثر شخص نے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر موسیٰ خیل سے آنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کو روکا۔
اس کے جواب میں موسیٰ خیل قبیلے کے افراد نے مسافر بسوں، پھلوں، سبزیوں اور سامان سے لدی بڑی گاڑیوں کو روک دیا۔

عزیز اللہ کے مطابق ٹرک کئی کئی دن تک سڑکوں پر پھنسنے کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز کا بھاری نقصان ہوجاتا ہے (فوٹو: منصور اچکزئی)

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے بلاوجہ شاہراہوں کو بند کرنے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ اس سلسلے میں قوانین موجود ہیں مگر ان پر عمل صرف اپنی مرضی اور حکومتی مفاد کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
عزیز اللہ کا کہنا تھا کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا جاتے ہوئے درجنوں مقامات پر ٹرکوں کو تلاشی کے نام پر سکیورٹی چیک پوسٹوں پر کئی کئی گھنٹوں تک روکا جاتا ہے جس کی وجہ سے کافی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔  جب شاہراہیں بند ہوتی ہیں تو سامان منزل تک بروقت پہنچانا  ناممکن ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے کئی بار لاکھوں روپے کی سبزیاں، پھل اور دوسرا سامان خراب ہوجاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرک کئی کئی دن تک سڑکوں پر پھنسنے کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز کا بھاری نقصان ہوجاتا ہے۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سابق نائب صدر بدر الدین کاکڑ کہتے ہیں کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا بڑا صوبہ ہے، اس کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے لگتی ہیں۔ دونوں ممالک کے ساتھ تجارت میں پہلے ہی بڑے مسائل ہیں اب رہی سہی کسر آئے روز شاہراہوں کی بندش نے پوری کردی ہے، جس کی وجہ سے تاجروں کا سامان بروقت منزل تک نہیں پہنچا۔ ان میں سبزیاں، پھل اور دوسری جلد خراب ہونےوالی اشیا بھی ہوتی ہیں جو شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے خراب ہوجاتی ہیں۔
بدر الدین کاکڑ کے مطابق ان مسائل کی وجہ سے تاجر اور ٹرانسپورٹر بلوچستان کو چھوڑ کر دوسرے صوبوں اور راستوں کو اختیار کر رہے ہیں جس سے بلوچستان کی معیشت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹ بلوچستان میں لاکھوں لوگوں کا روزگار کا ذریعہ ہے، اسی کی وجہ سے ڈرائیورز، کلینر، لوڈنگ ان لوڈنگ کرنے والے، کلیئرنگ ایجنٹس، پیٹرول پمپس اور ہوٹلز پر کام کرنے والے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا ہے لیکن یہ پوری چین ہی اب متاثر ہے۔
شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے سب سے زیادہ مسافر، مریض اور عام شہری متاثر ہیں۔ کئی مواقعوں پر شاہراہیں بند ہونے کی وجہ سے مریض بروقت ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے موت کے منہ میں بھی جا چکے ہیں۔ گذشتہ دنوں خضدار میں ایسا ایک مریض سڑک بند ہونے کی وجہ سے گھنٹوں تک ٹریفک میں پھنسنے کی وجہ سے دم توڑ گیا۔

تمام اہم شاہراہیں پانچ سے زائد دنوں تک بند رہنے کی وجہ سے صوبے میں پیٹرول کی قلت پیدا ہوگئی تھی (فوٹو: یوسف مری)

 ٹرانسپورٹر خدا بخش کہتے ہیں کہ کوئٹہ اور کراچی کو ملانے والی شاہراہ اوسطاً ہفتے میں ایک دن احتجاج کی وجہ سے بند رہتی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے لوگ سفر کرنے سے کتراتے ہیں۔ جب شاہراہ بند رہتی ہے تو خواتین، بچے، بزرگ اور مریض سڑکوں پر خوار ہوتے ہیں، بعض اوقات تو ایسی جگہ پر سڑک بند کردی جاتی ہے جہاں دور دور تک کوئی ہوٹل وغیرہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مسافروں کو پانی اور کھانابھی نہیں ملتا۔
شاہراہیں کھلوانے کے دوران طاقت کے استعمال کی وجہ سے جانی نقصانات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ گذشتہ ماہ مستونگ میں سڑک بند کرنے والے مظاہرین اور لیویز اہلکاروں کے درمیان فائرنگ میں لیویز اہلکاروں سمیت تین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کو روکنے کے لیے جولائی کے آخر اور اگست کے اوائل میں حکومت کی جانب سے بھی صوبے کی اہم شاہراہوں کو بند رکھا گیا جس پر ہائیکورٹ نے وفاقی اور صوبائی سیکریٹری داخلہ سے جواب طلبی بھی کی۔ حکومتی اقدام کے جواب میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بھی کئی مقامات پر سڑکیں بند کیں۔ تقریباً تمام اہم شاہراہیں پانچ سے زائد دنوں تک بند رہنے کی وجہ سے صوبے میں پیٹرول کی قلت پیدا ہوگئی تھی اور قیمت تین سو روپے سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔
گذشتہ ہفتے جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپنے سینیٹرز کی مبینہ گمشدگی کے خلاف بلوچستان بھر میں درجن سے زائد مقدمات پر اہم قومی شاہراہیں بلاک کیں۔ احتجاج کی وجہ سے افغانستان اور ایران سے تجارت بھی متاثر ہوئی۔ حکومت نے بی این پی کے کئی رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے۔

بدر الدین کاکڑ کا کہنا ہے کہ غلط روایت کی حکومت اور ہر طبقے کو حوصلہ شکنی کرنا ہوگی (فوٹو: یوسف مری)

بی این پی کے رہنماء غلام نبی مری کہتے ہیں کہ معمولی باتوں پر سڑک بند کرنے کا کوئی جواز تو نہیں مگر بڑے مسائل پر سیاسی جماعتیں اور لوگ اس وجہ سے بھی سڑکیں بند کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ حکومت ان کی بات نہیں سنتی۔  
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں لوگوں کی بات سننے والا کوئی نہیں، بیانات، پریس کانفرنس، جلسے جلوس، مظاہروں، دھرنوں کے باوجود بھی سوئے ہوئے حکمران نہیں جاگتے تو لوگ آخری حربے کے طور پر سڑکیں بند کرتے ہیں۔ تب حکومتی نمائندے آجاتے ہیں عارضی ریلیف مل جاتا ہے یا کوئی یقین دہانی کرادی جاتی ہے، لیکن مسائل کا کوئی مستقل حل نہیں نکالا جاتا جس کی وجہ سے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سابق نائب صدر بدر الدین کاکڑ کا کہنا ہے کہ سڑک کی بندش کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی غلط روایت کی حکومت اور ہر طبقے کو حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ حکومت کو بھی متحرک رہ کر لوگوں کے مسائل کو بروقت سن کر ان کا حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 

شیئر: