Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی گورننس گزشتہ حکومتوں سے کتنی مختلف؟

سرفراز احمد بگٹی نے بلوچستان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور بلوچستان عوامی پارٹی پر مشتمل مخلوط حکومت کی سربراہی رواں برس دو مارچ کو سنبھالی تھی۔ (فائل فوٹو: ایکس)
ملک کے تقریباً نصف رقبے پر پھیلا بلوچستان ترقی کی دوڑ میں پاکستان کے باقی تمام صوبوں سے پیچھے ہے، صوبے کی پسماندگی اور یہاں امن وامان کی خراب صورتحال کی بڑی وجہ خراب طرز حکمرانی کو سمجھا جاتا ہے۔
بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں قائم نئی مخلوط حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری، گورننس اور امن وامان کو ٹھیک کرنے کے وعدے کیے تھے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپنے قیام کے سات ماہ گزرنے کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت ایسے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کر سکی جس کی بنیاد پر ان کی کارکردگی کو ماضی کی حکومتوں سے بہتر قرار دیا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت بیوو کریسی میں تقرر و تبادلوں کے عمل کو سیاسی مداخلت سے پاک نہیں کر سکی اور نہ ہی ترقیاتی فنڈز کے درست استعمال کی سمت میں بھی کوئی ٹھوس کامیابی حاصل کر سکی ہے۔ نئی حکومت کے دور میں صوبے میں مزدوروں اور مسافروں کی ٹارگٹ کلنگ، سکیورٹی فورسز پر حملوں سمیت بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے اربوں روپے کے تعلیمی سکالر شپ پروگرام کے ذریعے نوجوانوں اور پسماندہ طبقے کو اندرون اور بیرون ملک اچھے اداروں میں تعلیم کے مواقع کی فراہمی، نوجوانوں کو فنی مہارت کی فراہمی کی کوششوں سمیت بعض دوسرے اقدامات کو سراہا بھی جا رہا ہے۔
بلوچستان میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) پر مشتمل مخلوط حکومت کی سربراہی رواں برس دو مارچ  کو سرفراز احمد بگٹی نے سنبھالی تھی۔ پہلی مرتبہ وزارت اعلٰی پر فائز ہونے والے میر سرفراز احمد بگٹی نے اپنے پہلے خطاب میں گورننس کو بڑے چیلنجز کے طور پر قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کب تک ہم دوسروں کو الزام دیتے رہیں گے، ہم نے گورننس کے چیلنج کو نہ صرف قبول ہے بلکہ اس کو درست بھی کرنا ہے۔‘
مگر صرف سات ماہ بعد ہی 30 ستمبر کو کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلٰی سرفراز بگٹی نے گورننس کے شعبے میں اپنی ناکامی کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ وہ جس قسم کی گورننس چاہتے ہیں وہ نہیں لا پا رہے اور اس کی وجہ یہاں کا سیاسی، بیورو کریسی کا نظام اور بہت ساری دوسری نزاکتیں ہیں، بلوچستان کی مخلوط حکومت کی نزاکت سب کو بہتر پتہ ہے۔
وزیراعلٰی کا کہنا تھا کہ ’میں پہلے دن سے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کا دعویٰ نہیں کر رہا ہوں لیکن ہم کم از کم سمت کا تعین ضرور کریں گے، گورننس کو بہتر کرنے کے لیے میرے پاس جادو کی چھڑی نہیں، ہم اس طرف آہستہ آہستہ جا رہے ہیں۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں کے ساتھ موجودہ حکومت کا موزانہ اس وقت کرنا درست نہیں ہوگا کیونکہ موجودہ حکومت کو پانچ چھ ماہ ہی ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت اپنا پہلا بجٹ پیش کر چکی ہے جس میں اس نے اپنے اہداف واضح کر رکھے ہیں۔

تجزیہ کار سید علی شاہ کے مطابق پیپلز پارٹی تاریخی طور پر بلوچستان میں گورننس میں اچھی نہیں رہی۔ (فوٹو: اے پی پی)

بلوچستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سید علی شاہ کہتے ہیں کہ  پیپلز پارٹی تاریخی طور پر بلوچستان میں گورننس میں اچھی نہیں رہی، نعرے زیادہ لیکن عملی کام کم ہوتا ہے ۔ موجودہ حکومت کے اس چھ سات ماہ کے دورانیے میں بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آ رہے جس سے کہا جا سکے کہ یہ گذشتہ حکومتوں سے مختلف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ حکومت کی ترجیحات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کی ٹھیک ٹھاک عمارت گرا کر نئی عمارت پر پانچ ارب روپے ضائع کئے جا رہے ہیں. دوسری طرف یونیورسٹی کے اساتذہ تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔‘
سید علی شاہ کے مطابق موجودہ حکومت کا بے نظیر شہید سکالر شپ پروگرام ہی ایسا واحد منصوبہ ہے جسے سراہا جانا چاہیے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا بڑا منصوبہ نہیں جس سے صوبے کی سماجی اور معاشی صورتحال میں بہتری آ سکے۔

’ترقی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ترقیاتی فنڈز کا غلط استعمال ہے‘

بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ محفوظ علی خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کے بارے میں اس وقت رائے دینا مشکل ہے کیونکہ انہیں زیادہ عرصہ نہیں گزرا، مگر سات آٹھ ماہ کے عرصے میں موجودہ حکومت کا کوئی ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں آیا۔ اعلانات ہر حکومت کرتی ہیں اصل بات عمل درآمد کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اعلانات کو کس حد تک عملی شکل دیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شفافیت، اہلیت، شمولیت اور احتساب سمیت گورننس کے پانچ چھ بنیادی عناصر ہوتے ہیں لیکن بلوچستان میں یہ سب نظر انداز ہیں۔ صوبے میں گورننس کی بہتری میں حکومتوں کی ناکامی کی وجہ دیرپا اور مستقل پالیسیوں کا نہ ہونا ہے۔

محفوظ علی خان نے کہا کہ گوادر میں اربوں ڈالر لگ گئے مگر مقامی معیشت کو کوئی فائدہ پہنچا اور نہ وہاں کے لوگوں کو روزگار ملا۔ (فائل فوٹو: اے پی)

محفوظ علی خان کے مطابق ’جب تک صوبے میں مخلوط حکومتیں بنیں گی کوئی طویل مدتی پالیسیاں نہیں بن سکتیں۔ ہر حکومت کے سر پر تلوار لٹکتی رہتی ہے، ہر وزیراعلٰی وزرا اور ارکان اسمبلی کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا ہے وہ انہیں ناراض نہیں کر سکتا۔ انہیں بہت سارے اقدامات نہ چاہتے بھی کرنے پڑتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان میں ترقی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ترقیاتی فنڈز کا غلط استعمال ہے، صوبے کے بجٹ کو بنانے کا طریقہ ہی غلط ہے اسے ماہرین کے بجائے صوبائی وزرا اور ارکان اسمبلی کی خواہش کے مطابق بنایا جاتا ہے جو عوامی خزانے کا استعمال صرف اور صرف سیاسی مقاصد کے لیے کرتے ہیں۔ کوئی سولر پینل تو کوئی پانی کی ٹینکی دے کر اپنے ووٹرز کو خوش کرتا ہے۔ بجٹ میں ایسے اجتماعی منصوبے نظر نہیں آتے جس سے صوبے کے پسماندہ عوام کی زندگی بدلی جا سکے۔‘
’جو ترقیاتی منصوبے شامل کیے جاتے ہیں ان کی فزیبلٹی رپورٹس اور پی سی ون نہیں بنی ہوتی۔ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے منصوبوں کے فنڈز روک دیتی ہیں جس کی وجہ سے منصوبے 10 10 سالوں میں مکمل نہیں ہوتے۔ ہر سال بلوچستان کے بجٹ کا بڑا حصہ لیپس ہوجاتا ہے یعنی استعمال ہی نہیں ہوتا۔‘
بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ محفوظ علی خان نے کہا کہ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے منصوبوں کے فنڈز روک دیتی ہے۔ 10 سالوں سے اڑھائی سو سے 300 ایسے منصوبے ہیں جنہیں ادھورا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے صوبے کو کم از کم 200 سے 250 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اکتوبر ختم ہونے والا ہے اور اس وقت تک بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ کا کم از کم 40 فیصد استعمال ہوجانا چاہیے تھا مگر بہت کم بجٹ استعمال ہوا ہے۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ موجودہ حکومت اپنا پہلا بجٹ پیش کر چکی ہے جس میں اس نے اپنے اہداف واضح کر رکھے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)

دوسری جانب ترجمان صوبائی حکومت شاند رند کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے ڈویلپمنٹ کے ماڈل کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی ہے، اس سلسلے میں بجٹ میں اہداف کا تعین کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے تو خسارے کا بجٹ بنا سکتے تھے۔ اربوں روپے جس طرح ماضی میں ایم پی ا یز میں بانٹے جاتے تھے اسی طرح بانٹ سکتے تھے اور یہ سیاسی حکومت کے لیے آسان کام ہوتا، لیکن حکومت نے منصوبوں کی تعداد کو کم کیا، فنڈز مختص کرنے کی شرح کو بڑھایا تاکہ منصوبوں کو جلد مکمل کیا جا سکے۔ 
شاہد رند کا کہنا تھا کہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں بہتری اور سکالر شپس پر نوجوانوں، شہداء اور پسماندہ طبقے کے بچوں کو تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو ہنرمند بناکر روزگار دلانا حکومت کی ترجیحات ہیں- اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

’قابل بیوروکریٹس کو او ایس ڈی بنا دیا گیا

خیال رہے کہ بلوچستان میں نجی شعبوں میں ملازمتوں کی کمی کے باعث ماضی کی حکومتیں سرکاری ملازمتیں بانٹ کر سیاسی فوائد لیتی رہی ہیں جس کی وجہ سے صوبے کے بجٹ کا بڑا حصہ تنخواہوں اور غیر ترقیاتی بجٹ پر خرچ ہو جاتا ہے۔ سرفراز بگٹی کی حکومت نے کم سے کم سرکاری ملازمتیں دینے کا فیصلہ کیا ہے اور زیادہ تر بھرتیاں عارضی بنیادوں پر کی جا رہی ہیں۔
امن وامان کے علاوہ موجودہ صوبائی حکومت غیرضروری بھرتیوں، بدعنوانی اور ترقیاتی کاموں کے معیار کو بڑے چیلنجز کے طور پر دیکھتی ہے۔ سرفراز بگٹی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ’ہم نے بلوچستان حکومت کو بھرتی کی فیکٹری سمجھ لیا ہے جو بیڈ گورننس کی بڑی وجہ ہے۔‘
بلوچستان میں ماضی کی حکومتوں پر سیکریٹریز، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، ڈی آئی جی پولیس اور ایس ایس پی سمیت دیگر اہم سرکاری افسران کے تقرر و تبادلے سیاسی بنیادوں، سفارش اورپیسوں کے عوض کرنے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔

صوبائی حکومت کی جانب سے تعلیمی سکالر شپ پروگرام کے ذریعے نوجوانوں کو اچھے اداروں میں تعلیم کے مواقع کی فراہمی کو سراہا جا رہا ہے۔ (فوٹو: بلوچستان ایجوکیشن انڈونمنٹ فنڈ)

اس حوالے سے سینیئر صحافی سید علی شاہ کہتے ہیں کہ ’موجودہ حکومت کے دور میں بھی اس میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اس وقت جتنے اچھے، اہل اور قابل بیوروکریٹس ہیں انہیں عہدوں سے محروم کر کے او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے جبکہ بدعنوان اور سیاسی باس کو ہمیشہ ہاں کہنے والے افسران کو اچھے عہدوں پر بٹھایا گیا ہے۔ اسی طرح وزارتوں کی تقسیم بھی ایسی کی گئی ہے جس میں کام کرنے کا عزم رکھنے والے سائیڈ پر ہیں۔‘
صوبے میں تقرر و تنبادلوں کے حوالے سے محفوظ علی خان نے کہا کہ ایم پی ایز کی پسند ناپسند کی بنیاد پر ٹرانسفر پوسٹنگ بلوچستان کا بڑا مسئلہ ہے۔ جب افسران ایم پی ایزکے کہنے پر تعینات ہوں گے تو وہ اپنا اصل کام کرنے کی بجائے ایم پی ایز کو خوش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 10 برسوں سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے اور موجودہ حکومت میں بھی یہی ہو رہا ہے کہ ہر چار پانچ ماہ بعد سیکریٹریز اور محکموں کے انتظامی سربراہان کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے، بہت کم ایسے افسران ہوں گے جنہوں نے ایک سال سے زائد کا عرصہ کسی ایک عہدے پر گزارا ہو۔
سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ٹرانسفر پوسٹنگ بکتی ہے، اگر صوبے میں بھی 50 فیصد بھی ٹرانسفر پوسٹنگ میرٹ پر ہو جائے تو گورننس میں بہتری آ سکتی ہے۔
صوبہ بلوچستان میں تقرر وتبادلوں کے حوالے سے صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند کا موقف ہے کہ چونکہ مخلوط حکومت ہے تو اب بھی ضلعی انتظامیہ کے افسران کی تقرری میں سیاسی دباؤ ہوتا ہے لیکن حکومت کوشش کررہی ہے کہ پہلے مرحلے میں پولیس کے تقرر و تبادلوں کو سیاسی مداخلت سے پاک کرے، دوسرے مرحلے میں ہماری کوشش ہوگی کہ ضلعی انتظامیہ کے سربراہان ڈپٹی کمشنرز وغیرہ کی تعیناتیوں کے عمل کو بہتر کریں۔

رواں برس اب تک دہشت گردی کے درجنوں واقعات میں 200 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود امن نہیں‘

پیپلز پارٹی نے سنہ 2008 میں حکومت کے قیام کے بعد بلوچستان میں مفاہمتی پالیسی اپنائی تھی تاہم سرفراز بگٹی کی قیادت میں موجودہ حکومت مفاہمت کی قائل نظر نہیں آتی، اور ان کا ناراض بلوچ رہنماؤں اور عسکریت پسند گروہوں کے بارے میں رویہ سخت گیر ہے۔ اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی پیشکش اور پھر بعد کے دنوں میں مذاکرات کے لیے صوبائی وزرا پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے کے اعلان کے باوجود صوبائی حکومت اس جانب کوئی پیشرفت نہیں کر سکی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سخت گیر پالیسیوں کے باوجود سرفراز بگٹی کی حکومت امن وامان بہتر بنانے میں ناکام نظر آ رہی ہے اور ان کے دور میں عسکریت پسندی اور بدامنی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ رواں برس اب تک دہشت گردی کے درجنوں واقعات میں 200 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ صرف گذشتہ دو ماہ کے دوران صوبے میں مزدوروں اور مسافروں سمیت 80 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
ماہر معاشیات اور سابق بیورو کریٹ محفوظ علی خان بدامنی کی وجہ صوبے میں خراب طرز حکمرانی اور معاشی و سماجی ترقی  کی کمی کو سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چند سال پہلے تک صوبے کا امن امان کا بج  پانچ ارب روپے تھا آج 70 ارب روپے سے زائد امن پر خرچ ہو رہے ہیں مگر اس کے باوجود امن نہیں۔ این ایف سی ایوارڈ کی مد میں بلوچستان کو اضافہ پیسہ ملا مگر وہ لوگوں کی فلاح و بہود اور سماجی ترقی پر خرچ ہونے کی بجائے امن و امان پر خرچ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر سال ہزاروں نوجوان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں مگر انہیں روزگار کی فراہمی کے کوئی مواقع نہیں۔ سرحدی علاقوں میں ایرانی تیل اور سمگلنگ روزگار کا بڑا ذریعہ ہے مگر متبادل فراہم کیے بغیر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔

سرفراز بگٹی نے گورننس کے شعبے میں اپنی ناکامی کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ وہ جس قسم کی گورننس چاہتے ہیں وہ نہیں لا پا رہے۔ (فائل فوٹو: ایکس)

سابق بیورو کریٹ کا کہنا تھا کہ ’معدنیات کے شعبے سے اربوں روپے ٹیکس لیا جاتا ہے مگر وہ رقم ان علاقوں میں خرچ نہیں ہوتی جہاں سے یہ معدنیات نکلتی ہیں۔ جہاں سے سونا تانبا نکلتا ہے وہاں لوگوں کو پانی میسر نہیں۔ گوادر میں اربوں ڈالر لگ گئے مگر مقامی معیشت کو کوئی فائدہ پہنچا اور نہ وہاں کے لوگوں کو روزگار ملا۔ لوگوں کو پینے کے پانی ، صحت اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات نہیں۔ اگ یہ رقم لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی تو گوادر کا ہر شخص سی پیک کے دفاع میں نکلتا۔‘
محفوظ علی خان کا کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ڈنڈے کے زور پر حل نہیں ہوا ، ڈنڈے سے مسائل حل ہوتے تو کب کے حل ہوچکے ہوت ،  لوگ مرتے رہیں گے اور پیسے  ضائع ہوتے رہیں گے۔ صوبے میں امن وامان کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہو سکتا ہے۔

شیئر: