تاریک راتوں میں ’روشنیوں کا تہوار‘ دیوالی کیوں منایا جاتا ہے؟
تاریک راتوں میں ’روشنیوں کا تہوار‘ دیوالی کیوں منایا جاتا ہے؟
منگل 29 اکتوبر 2024 5:32
یوسف تہامی، دہلی
رواں برس یہ تہوار 31 اکتوبر کو منایا جا رہا ہے (فوٹو اے ایف پی)
انڈیا میں یہ تہواروں کا موسم ہے۔ ابھی کچھ دن قبل دسہرے کا تہوار منایا گیا تھا جسے ہندو اساطیر میں برائی پر اچھائی کی فتح کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اب دیوالی کی آمد آمد ہے، یہ تہوار شاید ہندوؤں کا سب سے بڑا تہوار مانا جاتا ہے اور اسے روشنیوں کا تہوار بھی کہا جاتا ہے جس میں گھروں میں چراغاں ہوتا ہے اور پٹاخے پھلجھڑیاں چھوڑی جاتی ہیں۔
ہندوؤں کی روایت میں آتا ہے کہ یہ جشن اور چراغاں اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس دن ان کے بھگوان رام، ان کی اہلیہ سیتا اور ان کے بھائی لکشمن 14 سال کے بنواس یعنی جنگل میں جلاوطنی اور لنکا کے بادشاہ راون کو شکست دینے کے بعد گھر لوٹتے ہیں جس کی خوشی میں رام کے شہر اور اور ان کے دارالحکومت ایودھیا میں چراغاں کیا جاتا ہے یعنی دیے یا دیپک جلائے جاتے ہیں۔
رواں برس یہ تہوار 31 اکتوبر کو منایا جا رہا ہے اور بعض جگہ یکم نومبر کو۔ اس کے پس پشت بہت ساری کہانیاں ہیں۔
دیوالی کا کیا مطلب ہے؟
شاید یہ سوال آپ کے ذہن میں آیا ہو کہ دیوالی کا کیا مطلب ہے؟ دیوالی دراصل دیپاولی کا بگڑا ہوا روپ ہے، دیپ کا مطلب روشنی اور ولی کا مطلب قطار ہوتا ہے جس کا مطلب ہے دیے قطار در قطار جلائے جاتے ہیں۔ یہ تہوار اماوس یعنی تاریک رات میں منایا جاتا ہے یعنی جس رات چاند نہ نظر آئے اور اس کے دوسرے دن نیا چاند نکلے۔
اس تہوار میں غریب ترین جھونپڑیوں سے لے کر محلوں تک، تمام گھروں میں روشنی اور چراغاں کا انتظام کیا جاتا ہے اور انہیں سجایا جاتا ہے۔
انڈین اساطیر میں دیوالی
اس دن لوگ دولت کی دیوی لکشمی اور گنیش کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ یہ کم از کم انڈیا کے مختلف حصوں میں کوئی دو ہزار سال سے منایا جا رہا ہے۔ لیکن مغل بادشاہوں کے دور میں اس میں بہت زیادہ وسعت آئی اور یہ ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا۔ دہلی کے قلعے میں اسے ’جشن چراغاں‘ کے نام سے منایا جاتا تھا۔
ہندو رام کو دوسرے سب سے بڑے دیوتا اور کائنات کے محافظ وشنو کے اوتار کے طور پر مانتے ہیں اور یہ ان کے ایودھیا میں استقبال کے لیے منایا جاتا ہے لیکن اب تو دیوالی انڈیا ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر کونے میں منائی جانے لگی ہے یہاں تک کہ امریکہ کے وائٹ ہاؤس میں بھی منائی جانے لگی ہے۔
رواں برس امریکی صدر جو صدر بائیڈن انڈین امریکیوں کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں دیوالی منانے والے ہیں۔
دیوالی منانے کی تاریخ
دیوالی کا تہوار عموماً خزاں کے موسم میں اکتوبر اور نومبر میں منایا جاتا ہے اور یہ ہندو کیلنڈر پر منبی ہے جو کہ چاند پر مبنی ہے لیکن شمسی کیلنڈر سے بھی ہم آہنگ کرنے کے لیے ہر تین سال میں دو ماہ کو ایک ماہ کے طور پر گنا جاتا ہے۔ اس جشن کی تاریخ ہر سال مختلف ہوتی ہے۔
یہ جشن اب زیادہ تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے اور تقریباً پانچ دنوں تک جاری رہتا ہے جس میں ہر روز ایک خاص تقریب ہوتی ہے۔ شہروں میں اس کا خاصا زور ہوتا ہے کیونکہ وہاں مال و زر کی طاقت بھی ہوتی ہے۔
دیوالی ہندو کے علاوہ سکھ اور جین مذہب کے پیروکار بھی مناتے ہیں اور یہ ان کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
دیوالی سے پہلے ہر کوئی اپنے گھروں کی صفائی کرتا ہے۔ گھروں کو وائٹ واش کیا جاتا ہے اور ایک نئی شروعات کی تیاری کی جاتی ہے۔ ان دنوں لوگ اندھیرے پر روشنی کی فتح اور برائی پر اچھائی کا جشن مناتے ہیں۔
یہ پانچ دنوں پر محیط ہے جس میں ہر دن خصوصی تقریب منعقد کی جاتی ہے جس کی جڑیں ہندوستانی دیومالائی کہانی اور داستانوں میں پیوستہ ہیں۔ دیوالی کے پہلے دن گھروں کی صفائی ہوتی ہے لوگ اپنے گھروں کے فرش کو رنگین ریت یا پھولوں کی پتیوں سے سجاتے ہیں جسے رنگولی کہتے ہیں اور آپ کو اس موقعے پر طرح طرح کی رنگولیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اسے دھن تیرس کہتے ہیں اس دن لوگ کوئی نہ کوئی نئی چیز ضرور خریدتے ہیں۔
دیوالی کے دوسرے دن کی اہم رسومات میں سے ایک غسل کرنا، آرام کرنا اور سبزیوں کے تیل سے جسم کی مالش کرنا ہے۔
دیوالی کا تیسرا دن سب سے اہم اور مرکزی دن ہے۔ اس دن چاند مکمل طور پر غروب ہوتا ہے اور موسم معمول سے زیادہ تاریک ہو جاتا ہے، اسی لیے بہت سے دیے جلائے جاتے ہیں اور چراغاں کیا جاتا ہے۔ لوگ پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ اس رات بہت سے لوگ اپنے گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں کھولتے ہیں تاکہ ان کے گھروں اور زندگیوں میں مزید روشنی آئے۔ دیر رات تک آتش بازیاں ہوتی ہیں۔ جبکہ بعض جگہ تو صبح صادق تک آتش بازی ہوتی ہے۔
دیوالی کے چوتھے دن کے بارے میں بہت سی کہانیاں ہیں، کچھ لوگ اسے میاں بیوی کے دن کے نام سے جانتے ہیں اور وہ اکثر ایک دوسرے کے لیے تحائف تیار کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ اس دن بارش کے دیوتا اندر پر کرشن کی فتح کو یاد کرتے ہیں اور اسے مناتے ہیں۔
دیوالی کا پانچواں یا آخری دن بہنوں اور بھائیوں کے جشن کا دن ہے۔ اسے بھیا دوج کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بہنیں اپنے بھائیوں اور سرپرستوں کے لیے خصوصی دعا کرتی ہیں۔
مسلم سلاطین نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ سب سے پہلے دہلی سلطنت کے حکمراں محمد بن تغلق نے اسے منایا اور پھر بعد میں مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے ہندو مسلم دوستی کی خاطر اسے شاہی تقریب قرار دیا۔ ان کے بیٹے اور پوتے جہاںگیر اور شاہ جہاں نے بھی اس روایت کو قائم رکھا اور آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر تک یہ جشن دہلی کے لال قلعے میں بدستور جاری رہا۔
مغل سلاطین کے بعد اودھ کے نواب نے اسے چار چاند لگائے۔ اردو کے معروف شاعر میر تقی میر نے آصف الدولہ کی دیوالی پر ایک مثنوی لکھی ہے جبکہ نواب واجد علی شاہ نے اس میں اپنے فن کو پیش کرنے کا موقعہ تلاش کیا اور ٹھمری اور رادھا کرشن کے رقص کو شامل کیا۔
اردو شاعری میں دیوالی پر بہت ساری نظمیں اور اشعار نظر آتے ہیں ایک شعر جو ہر جگہ نقل کیا جاتا ہے آپ بھی سنتے چلیے: