جاپان میں ’تنہائی کی وبا‘، کیا ٹیکنالوجی لوگوں کو اکیلے پن کا شکار کر رہی ہے؟
جاپان میں ’تنہائی کی وبا‘، کیا ٹیکنالوجی لوگوں کو اکیلے پن کا شکار کر رہی ہے؟
بدھ 30 اکتوبر 2024 5:54
مرنے والوں میں سے چار ہزار لوگ ایسے تھے جن کی لاش اُن کی موت کے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد ملی (فائل فوٹو: پینٹرسٹ)
یہ کورونا وبا کے دنوں کا ذکر ہے۔ دنیا کے اور بہت سے نوجوانوں کی طرح جاپان کے ایک 23 برس کے نوجوان کی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو گئی۔
وہ اُن دنوں یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھا مگر کورونا وبا پھیلی تو یونیورسٹی جانے کا سلسلہ موقوف ہو گیا اور وہ آن لائن لیکچرز لینے لگا جس کے باعث وہ وبا کے اُن دنوں اپنا زیادہ وقت کمپیوٹر کی سکرین پر نظریں جھکائے کام کرتا رہتا اور تب ہی اس کی سماجی زندگی درہم برہم ہوگئی۔ وہ الگ تھلگ اور خاموش رہنے لگا۔ اِن تبدیلیوں کے اثرات اس کی صحت پر بھی مرتب ہوئے۔ وہ بیمار ہو گیا اور اس کا وزن پانچ کلو تک کم ہو گیا۔
وہ ایک روز ٹرین پر سفر کر رہا تھا، مگر نقاہت کے باعث گِر گیا۔ وہ ڈپریشن کا شکار ہو چکا تھا۔ تنہا، بوجھل اور اپنی ہی ذات کے خول میں مقید۔
کورونا کی وبا تو ختم ہو گئی، دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگ جان سے گئے۔ بہت سے خطوں میں تو زندگی کا مفہوم ہی سرے سے تبدیل ہو گیا مگر جاپان میں ایک اور ’وبا‘ پھیلی جس پر قابو پانا جاپانی حکام کے لیے دن بدن مشکل ہو رہا ہے۔ یہ ’تنہائی‘ کا عفریت ہے جو جاپان میں ہر سال لاکھوں لوگوں کی موت کا سبب بن رہی ہے۔
جاپان کی نیشنل پولیس ایجنسی کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران 40 ہزار لوگ اپنے ہی گھر میں مردہ پائے گئے، وہ تنہائی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں جاپان نیشنل پولیس ایجنسی کے حوالے سے یہ اعدادوشمار پیش کیے ہیں کہ ’ان مرنے والوں میں سے چار ہزار لوگ ایسے تھے جن کی لاش اُن کی موت کے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد ملی جب کہ 130 لوگ ایسے تھے جن کی لاش ملی تو ان کو لاپتا ہوئے ایک برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔‘
یہ پیشِ نظر رہے کہ اقوامِ متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق، جاپان اس وقت ادھیڑ عمر آبادی والا سب سے بڑا ملک ہے۔
یہ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جس کی جانب بے مثل شاعر گلزارؔ نے کچھ یوں اشارہ کیا ہے۔
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا
بات آگے بڑھانے سے قبل یہ بتاتے چلیں کہ ان مرنے والوں میں اکثریت اُن لوگوں کی تھی جو پاکستان کی اوسط عمر 66 برس سے زیادہ زندگی گزار چکے تھے، جیسا کہ جاپان کی نیشنل پولیس ایجنسی کے اعداد و شمار سے یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ مرنے والوں میں سے تقریباً 70 فی صد 65 برس یا اس سے زیادہ عمر کے تھے اور اِن میں سے سب سے بڑی تعداد اُن لوگوں کی تھی جو 85 برس یا اس سے زیادہ عمر کے تھے۔
یہ درست ہے کہ تنہائی کی یہ ’وبا‘ صرف جاپان تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے اثرات یورپ اور امریکہ میں بھی دکھائی دیے۔
برطانیہ بھی اس ’وبا‘ کی زد سے محفوظ نہیں رہا بلکہ برطانیہ میں تو سال 2018 میں اُس وقت وزیراعظم تھریسامے نے تنہائی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک وزیر بھی تعینات کیا تھا۔ وہ یہ درست طور پر یقین رکھتی تھیں کہ ’یہ جدید عہد کی پریشان کر دینے والی حقیقت ہے۔‘
امریکی جریدے ٹائم میگزین نے اس بارے میں اپنے ایک مضمون میں انکشاف کیا تھا کہ ’ایک برطانوی کمیشن کو یہ معلوم ہوا ہے کہ ملک میں تقریباً 90 لاکھ لوگ اکثر یا ہمیشہ تنہائی محسوس کرتے ہیں، یہ ایک ایسی صورتِ حال ہے جو صحت کے لیے ضرر رساں ثابت ہو سکتی ہے۔‘
ایک اور وضاحت کرنا ضروری ہے کہ تنہائی اور اکیلے پن کے معنوں میں فرق ہے جس کی وضاحت شاعرانہ پیرایے میں کچھ یوں کی جا سکتی ہے،
میں اپنے ساتھ رہتا ہوں ہمیشہ
اکیلا ہوں مگر تنہا نہیں ہوں
آپ اگر مزید وضاحت چاہتے ہیں تو صاحبِ اسلوب شاعر احمد مشتاقؔ کے اس شعر کو ہی لے لیجیے؛
تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے
لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا
تنہائی ایک جذباتی کیفیت کا نام ہے تو اکیلا پن حقیقت کے قریب تر مظہر ہے، یعنی جب آپ کے محسوسات ہی نہیں بلکہ آپ خود بھی ’اکلاپے‘ کا شکار ہوں۔ لوگ تو ورنہ تنہائی میں بھی ’تنہائی‘ محسوس نہیں کرتے۔ لفظ تنہائی فارسی زبان سے مستعار لیا گیا ہے تو اکیلا پن سنسکرت سے اُردو میں آیا ہے۔ دونوں لفظ اکثر خلط ملط کر دیے جاتے ہیں۔ فراق گورکھپوری نے کیا خوب کہا ہے،
میں ہوں، دل ہے، تنہائی ہے
تم بھی ہوتے اچھا ہوتا
جاپان اور برطانیہ کی بات ہوگئی تو کچھ ذکر پاکستان کے بارے میں بھی ہو جائے کہ کیا پاکستانی بھی جلد یا بدیر تنہائی کی اس ’وبا‘ کا سامنا کرنے تو نہیں جا رہے؟ اس سوال کا جواب سرِدست پانا آسان نہیں ہے۔
پاکستان کے انگریزی اخبار ’ڈان‘ کے لیے ہما یوسف اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ’پاکستان بہت سی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے لیکن بظاہر ان مسائل میں تنہائی کے شامل ہونے کا زیادہ امکان نہیں ہے۔‘
وہ مگر آگے چل کر اپنے ہی اس کالم میں یہ سوال اٹھاتی ہے کہ ’کیا ہم اپنے فہم کی نسبت زیادہ تنہائی کا شکار تو نہیں ہیں؟‘
وہ معروف مصنفہ اور ماہرِ تعلیم نتاشا جاپان والا کے کراچی کے نوجوانوں میں تنہائی کے مظہر پر سال 2018 میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’انہوں نے استدلال پیش کیا ہے کہ لوگ اُس وقت بھی تنہائی محسوس کرتے ہیں جب وہ اپنے خاندان والوں کے درمیان موجود ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اپنی حقیقی شخصیت کی عکاسی نہیں کر سکتے۔ ان کے سروے میں ایک انٹرویو دینے والے نے اس مظہر کو کچھ یوں بیان کیا تھا کہ ‘تنہائی ایک ایسی کیفیت ہے جس میں آپ یہ ظاہر نہیں کر سکتے کہ آپ کون ہیں…میں مشکل محسوس کرتا ہوں کیوں کہ میرے لیے اپنی ذات کے خول سے نکلنا ممکن نہیں ہے۔‘
’ڈان‘ میں ہی شائع ہونے والے ایک مضمون میں مونا خان ’تنہائی‘ کے مظہر پر بات کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’ٹیکنالوجی نے کسی شک و شبے کے بغیر ہماری زندگیاں تبدیل کر ڈالی ہیں اور دنیا سمٹ گئی ہے: ہم کہیں پر بھی ہوں، ہم اپنے دوستوں اور خاندان والوں سے بات کر سکتے ہیں۔ آپ جنم دن، شادی اور حتیٰ کہ جنازوں کی تقریبات میں بھی آن لائن شریک ہو سکتے ہیں۔ آپ ہر چیز جو آپ چاہتے ہیں، آن لائن تلاش کر سکتے ہیں: ہوسکتا ہے کہ آپ آن لائن محفوظ (تصور کرتے) ہوں۔ لیکن آپ آن لائن رہتے ہوئے اپنی ہی دنیا میں مقید ہو سکتے ہیں اور انٹرنیٹ کی وجہ سے ہم زیادہ وقت اپنے آپ ہی میں رہنے لگے ہیں۔‘
واپس جاپان کا رُخ کرتے ہیں جو اس وقت اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے اور یہ گذشتہ کئی برسوں سے جاپان میں ایک اہم موضوع رہا ہے۔ اخبارات میں اداریے لکھے جا رہے ہیں، محققین تحقیقی سرگرمیوں میں مشغول ہیں اور ادیب اس مظہر کو بیاں کرنے کے لیے لفظوں سے کھیل رہے ہیں مگر جاپان اور جاپانیوں کے لیے یہ معاملہ غیرمعمولی طور پر سنجیدہ رُخ اختیار کر چکا ہے کیوں کہ گذشتہ برس اپریل میں ایک حکومتی سروے سے یہ انکشاف ہوا کہ ملک کی 40 فی صد آبادی کبھی نہ کبھی تنہائی کے آسیب کا شکار رہی ہے۔
انڈین ٹیلی ویژن چینل ’ڈبلیو آئی او این‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’جاپان میں وہ لوگ جو سماجی تعلقات رکھنے سے گریزپا رہتے ہیں، ہیکوموری کہلاتے ہیں۔ سروے سے یہ معلوم ہوا کہ 15 سے 62 برس کی عمر کے درمیان کے دو فی صد لوگ ہیکوموری ہیں۔‘
اس رپورٹ کے مطابق ’حکومتی سروے میں یہ کہا گیا ہے کہ ہیکوموری تعلقات رکھنے میں مشکلات اور اپنی ملازمتیں کھو دینے کے بعد مرکزی دھارے کے سماج سے دور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔‘
جاپان میں اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے برطانوی اخبار گارڈین کی اُس رپورٹ کا حوالہ دینا ازبس ضروری ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جاپان میں رواں سال تنہائی میں مرنے والوں کی تعداد 68 ہزار تک پہنچ سکتی ہے جو سال 2011 میں 27 ہزار تھی۔
گارڈین کی اس رپورٹ کے مطابق ’جاپان میں ادھیڑ عمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے، اور زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی زندگی کے اخری برس تنہائی میں گزار رہے ہیں۔ 65 برس سے زیادہ عمر کے تنہا رہنے والے لوگوں کی تعداد سال 2020 میں 73.80 لاکھ تھی جس کے بارے میں خدشہ ہے کہ یہ سال 2050 تک تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہو سکتی ہے۔‘
اس رپورٹ میں جاپان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ سوشل سکیورٹی ریسرچ کے ان اعداد و شمار کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جن کے مطابق، 2020 کی مردم شماری سے یہ انکشاف ہوا کہ جاپان میں ایک فرد پر مشتمل گھروں کی تعداد مجموعی گھروں کے 38 فی صد تک پہنچ چکی ہے جو پانچ برس قبل کیے گئے سروے سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی نسبت 13.3 فی صد زیادہ ہے۔
ان تمام پریشان کن اعداد و شمار کے باوجود برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، ’آج دنیا بھر میں اکیلے پن پر بات ہو رہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آج زیادہ لوگ تنہائی کا شکار ہیں۔ سال 1948 میں لندن کی برونیل یونیورسٹی میں ایک تحقیق ہوئی تھی۔ اس وقت سے آج تک معاشرے میں اکیلا پن محسوس کرنے کا تناسب تقریباً ایک سا ہے۔‘
آپ کا فکرمند ہونا بجا ہے کیوں کہ پاکستان میں بھی تنہائی اور اکیلے پن کا شکار لوگوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور یہ مظہر اب صرف شاعروں اور ادیبوں تک محدود نہیں رہا جنہوں نے تنہائی کو رومانی پیرایے میں بیاں کیا جب کہ حقیقت میں یہ بہت سے نفسیاتی اور صحت کے مسائل کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس لیے خوش رہیے اور سماجی میڈیا سے ہٹ کر بھی کچھ وقت اپنے دوست احباب اور رشتے داروں کے لیے نکال لیا کیجیے تاکہ آپ اس وبا سے محفوظ رہ سکیں مگر یہ نہ ہو کہ آپ لوگوں کی تنہائی میں محل ہونے لگیں۔