’اُنروا‘ پر پابندی سے فلسطینیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا: سربراہ عالمی امدادی ایجنسی
’اُنروا‘ پر پابندی سے فلسطینیوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا: سربراہ عالمی امدادی ایجنسی
جمعرات 31 اکتوبر 2024 14:25
فلپ لازارینی نے عالمی ڈونرز اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے تعاون کی اپیل کی۔ فوٹو: اے ایف پی
اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی ’اُنروا‘ کے سربراہ فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایجنسی کی سرگرمیوں پر پابندی سے غزہ اور مغربی کنارے میں مزید عدم استحکام پیدا ہوگا جس سے شہریوں کی ہلاکتیں بڑھیں گی۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک انٹرویو میں عالمی امدادی ایجنسی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ پابندی فلسطینیوں کے خلاف ہے جو اُن کو زندگی بچانے، تعلیم اور صحت کی سہولیات کے حصول سے روکے گی۔
چاروں طرف سے اسرائیل کے محاصرے میں غزہ کی پٹی میں لاکھوں افراد کا گزر بسر عالمی ایجنسی کی جانب سے فراہم کی جانے والی امداد پر ہے جبکہ گزشتہ برس سات اکتوبر سے علاقے کی 23 لاکھ آبادی اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔
اُنروا کے سربراہ نے کہا کہ ’اگر اسرائیلی قانون پر عمل کیا گیا تو یہ مکمل تباہی ہوگی اور یہ بچوں کو پانی میں پھینک دینے جیسا عمل ہوگا۔‘
فلپ لازارینی نے ایسوسی ایٹد پریس کو یہ انٹرویو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں دیا جہاں وہ مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعے پر ایک کانفرنس میں شریک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ’ایک خلا پیدا کرنے کا باعث بنے گا، اور یہ غزہ کی پٹی میں مزید عدم استحکام پیدا کرے گا۔ اُنروا کو تین ماہ میں کام بند کرنے کے لیے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ غزہ میں مزید شہری ہلاکتیں ہوں گی۔‘
عالمی امدادی ایجنسی کے سربراہ نے کہا کہ وہ اس وقت ایسے طریقے تلاش کر رہے ہیں جن کے ذریعے جاری امدادی سرگرمیوں کو برقرار رکھا جا سکے۔
انہوں نے عالمی ڈونرز اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے تعاون کی اپیل کی۔ اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ تین ماہ کے دورانیے کو بڑھائے۔
فلپ لازارینی نے کہا کہ قانون منظور کیے جانے کے بعد تاحال اسرائیل نے عالمی امدادی ایجنسی سے اس حوالے سے باضابطہ کوئی رابطہ نہیں کیا۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ کی ایجنسی ’اُنروا‘ غزہ اور مغربی کنارے کے ساتھ پڑوسی ملکوں لبنان، شام اور اردن میں سکولوں، طبی سہولیات اور دیگر خدمات کے نیٹ ورکس چلا رہی ہے۔ خاص طور پر غزہ میں یہ ایجنسی سماجی خدمات اور مقامی آبادی کی معیشت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ یہ علاقے کی واحد اور سب سے بڑی آجر ہے جو زیادہ تر آبادی کے لیے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کا ذریعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ منظور کیے گئے قوانین ان تمام سرگرمیوں کو بند کرتے ہیں جس کے باعث مستقبل میں لاکھوں بچوں کی تعلیم اور بہبود متاثر ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ آج ہمارے پاس غزہ میں ہر 2 میں سے 1 شہری 18 سال سے کم عمر کا ہے، ان میں سے ساڑھے چھ لاکھ لڑکیاں اور لڑکے ملبے پر رہ رہے ہیں، جو پرائمری اور سیکنڈری سکول جانے کی عمر میں شدید صدمے کا شکار ہیں۔
ان کے مطابق تعلیم وہ واحد چیز ہے جو فلسطینیوں سے کبھی نہیں چھینی گئی۔