ماہرین کا کہنا ہے کہ شواہد سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جزیرہ العرب میں عہد رفتہ میں بڑی تعداد میں چراگاہوں کا رواج رہا تھا جو ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوتی تھیں۔
اس گاؤں کو’النطاۃ‘ کہا جاتا تھا اس کی تاریخ کے بارے میں خیال ہے کہ 2 ہزار سے 2400 قبل از مسیح یا اس سے بھی قدیم تھا۔
یہ گاؤں 2.6 ہکٹر رقبے پرپھیلا ہوا تھا جس کے اطراف میں 15 کلومیٹر طویل باونڈری وال تھی اور یہاں رہنے والوں کی تعداد 500 کے قریب رہی ہوگی۔
رائل کمیش العلا گورنریٹ نے فرانسیسی ایجنسی برائے سائنسی تحقیق کے تعاون سے دریافت ہونے والے گاوں کا مطالعہ کرنے کے بعد رپورٹ پیش کی ہے۔ اس حوالے سےانکشافات سائنسی جریدے ’پلوس ون‘ میں شائع کیے گئے ہیں۔
ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیموں نے گاوں کی تلاش کے پہلے مرحلے کا آغاز اکتوبر 2020 میں کیا تھا جب وہاں معمولی آثار دیکھے گئے تھے جس کے بعد علاقے کا بڑے پیمانے پرسروے کیا گیا اور حکمت عملی مرتب کرنے کے بعد گاؤں کی باقاعدہ دریافت کے کام کا آغاز ہوا۔
فروری 2024 میں ماہرین کی ٹیم نے قدیم گاوں کی دریافت کے لیے مخصوص آلات سے مکمل سکینگ کی جس میں زیرزمین دفن ہونے والے کھنڈرات کے واضح آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے۔
دریافت ہونے والے گاؤں کا مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں وہاں آباد لوگ روایتی مکانوں میں رہا کرتے تھے جو کئی منزلہ تھے۔
اس وقت کے باشندے زمینی منزل کو بطور گودام استعمال کرتے ہوں گے جبکہ پہلی اور دوسری منزل رہائش کے لیے مخصوص ہوگی۔ مکانوں کے درمیان راستہ اورگلیاں تنگ اور چھوٹی ہوتی تھیں۔
دریافت ہونے والے گاؤں میں قبرستان بھی تھا جو ٹاور کی شکل کا بنایا گیا تھا جن میں وہ اپنے مردوں کو دفناتے تھے۔ بعض قبروں سے اس دور میں استعمال ہونے والے مٹی کے برتن اور دھاتی آلات جن میں کلہاڑی اور خنجر وغیرہ شامل تھے، ملے ہیں۔