Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کو انڈیا یا امریکی اسٹیبلشمنٹ کی نظر سے نہیں دیکھیں گے: مبصرین

نفیس زکریا کے مطابق ’ڈیموکریٹس ہوں یا ریپبلکنز، پاکستان کو دونوں سے کوئی خاص فائدہ پہنچنے کا امکان نہیں ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ اس سے پاکستان کی قسمت بدل جائے گی، تاہم وہ پاکستان کو انڈیا یا امریکی اسٹیبلشمنٹ کی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر پاکستان کے سابق سیکریٹری دفاع نعیم خالد لودھی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب امریکی انتخابات میں پاکستانی عوام اور میڈیا کی دلچسپی دیکھتا ہوں تو مجھے ایک شعر یاد آتا ہے کہ تجھ کو کیا پڑی پرائی اپنی نبیڑ تو۔ 
انہوں نے کہا کہ ’امریکی الیکشن کا نتیجہ پاکستان پر بالکل بھی اثر انداز نہیں ہوگا، یہ سمجھنا تو غلط ہوگا، البتہ یہ سمجھنا کہ اس سے پاکستان کی قسمت بدل جائے گی یا کوئی تباہی آجائے گی ایسا کچھ نہیں ہوگا۔‘
’امریکہ ایک سپر پاور ہے اور اس کی پالیسیاں مختصر کے بجائے طویل المدت ہوتی ہیں۔ ایک حکومت کی تبدیلی سے یہ پالیسیاں فوراً نہیں بدلتیں۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح پر اردو نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں تبصرہ کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ میری مسلسل ایک سال سے کی گئی پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی کہ ڈونلڈ ٹرمپ 2024 میں دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ کی شاندار فتح امریکی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی واپسی ہے، امریکی اسٹیبلشمنٹ اور ’ڈیپ سٹیٹ‘ کے لیے بڑی شکست ہے اور پاکستان اور عالمی امن کے لیے خوش آئند ہے۔ ٹرمپ جنگ پسند نہیں ہیں اور نہ ہی سرد جنگ کے حامی ہیں۔‘ 
سابق سینیٹر کا مزید کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ پاکستان کو انڈیا یا امریکی اسٹیبلشمنٹ کی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ انہوں نے ماضی میں کشمیر کے تنازع پر ثالثی کی بات کی اور وہ یوکرین اور ایشیا میں جنگیں ختم کریں گے، نئی جنگیں شروع نہیں کریں گے کیونکہ وہ جنگ کے حامی نہیں ہیں۔

مشاہد حسین کہتے ہیں کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ کی شاندار فتح  پاکستان اور عالمی امن کے لیے خوش آئند ہے‘ (فائل فوٹو: اردو نیوز)

برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر نفیس زکریا کے مطابق پاکستان کے لیے امریکہ کی کون سی جماعت کی حکومت فائدہ مند یا نقصان دہ ہے اس کے لیے ہمیں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ کو دیکھنا ہوگا۔
’دونوں ممالک کی تاریخ کو دیکھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جائے گی کہ امریکہ نے 50 کی دہائی کے علاوہ پاکستان کو کبھی خاص اہمیت نہیں دی اور اگر دی بھی ہے تو اس میں تھوڑی سی مراعات کے ساتھ پاکستان سے بڑے بڑے کام نکلوائے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جب بھی امریکہ کا اپنا مقصد اور مفاد پورا ہوا اس نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔ اس کی تازہ ترین مثال افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا تھا جس کے بعد ہیلری کلنٹن نے بھی کہا تھا کہ سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دینا مناسب نہیں تھا۔ 
نفیس زکریا نے مزید کہا کہ ڈیموکریٹس ہوں یا ریپبلکنز، پاکستان کو ان دونوں سے کوئی خاص فائدہ پہنچنے کا امکان نہیں ہے۔
’اگر آپ چین یا روس کے حوالے سے نرم گوشہ پیدا کریں گے تو جو پابندیاں اُن پر لگیں گی وہی آپ پر بھی لگ سکتی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ فرق صرف اتنا پڑتا ہے کہ جب ایک حکومت تبدیل ہوتی ہے اور دوسری آتی ہے تو اس سے پاکستان کے حوالے سے سخت پالیسیوں میں کچھ نرمی آجاتی ہے، البتہ پالیسیوں کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ 

شیئر: