موسیٰ خیل میں 22 مسافروں کا قتل، ’بچوں اور طلبہ کو استعمال کیا گیا‘
موسیٰ خیل میں 22 مسافروں کا قتل، ’بچوں اور طلبہ کو استعمال کیا گیا‘
جمعہ 8 نومبر 2024 16:11
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے کہا کہ ’دکی میں کوئلہ کان کے 20 مزدوروں کے قتل میں بلوچ لبریشن آرمی ملوث ہے (فوٹو: پی آئی ڈی ، کوئٹہ)
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرکاری حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ موسیٰ خیل میں 22 مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے والے گروہ کے تین دہشت گردوں کو ایک کارروائی میں ہلاک اور دو کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ حملے میں ملوث باقی ارکان اور سہولت کاروں کے بارے میں بھی پتا لگا لیا ہے جن کی گرفتاری کے لیے موسیٰ خیل، لورالائی اور دکی سمیت اطراف کے علاقوں میں آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گرد تنظیم نے کارروائی کے لیے بچوں اور طالب علموں کو استعمال کیا۔
یہ بات موسیٰ خیل اور لورالائی سے بلوچستان اسمبلی کے رکن صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران، ترجمان صوبائی حکومت شاہد رند اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل سی ٹی ڈی اعتزاز احمد گورائیہ نے سول سیکریٹریٹ کوئٹہ میں نیوز کانفرنس کے دوران بتائی۔
پریس کانفرنس میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی چھوڑنے والے پنجاب یونیورسٹی میں زیرِتعلیم بلوچستان کے ایک طالب علم طلعت عزیز کو بھی پیش کیا گیا جنہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں بلوچ کونسل اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ارکان نے ورغلا کر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کا حصہ بنایا تاہم غلطی کا احساس ہونے پر بھاگ کر کالعدم تنظیم چھوڑ دی۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے بتایا کہ 25 اور 26 اگست کی رات کو موسیٰ خیل کے علاقے راڑہ شم میں این 70 قومی شاہراہ پر بسوں سے اتار کر 22 مسافروں کو قتل کیا گیا جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس علاقے میں کام کیا اور شواہد کی بنیاد پر ملوث عناصر کا پتا لگانے کی کوشش کی جس میں انہیں کامیابی ملی۔
کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی) کے ڈی آئی جی اعتزاز احمد گورائیہ نے کارروائی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ راڑہ شم میں معصوم پاکستانیوں کو بسوں سے اتار کر بے دردی سے قتل کرنے کے واقعے کے بعد لوگوں میں رنج و غم اور غصہ بھی تھا اور حکومت پاکستان اور حکومت بلوچستان کی جانب سے احکامات بھی دیے گئے تھے، اس لیے سی ٹی ڈی، انٹیلی جنس ایجنسیوں، ایف سی، پولیس اور لیویز سب نے اسے بطور چیلنج لیا اور مل کر کام کرکے الحمد للہ اہم کامیابی حاصل کر لی۔
ان کا کہنا تھا کہ موسیٰ خیل میں آپریشن کے دوران تین دہشت گرد مارے گئے اور دو پکڑے گئے۔ گرفتار دہشت گردوں نے دوران تفتیش بہت سے انکشافات کیے۔ انہوں نے خود حملے میں عملی طور پر ملوث ہونے اور ہتھیاروں کی سپلائی کا اعتراف کیا۔
ڈی آئی جی کے مطابق ہمیں واقعے میں ملوث تمام دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے بارے میں معلوم ہو گیا ہے۔ یہ بھی پتا چل گیا ہے کہ کون کمان کر رہا تھا، کہاں منصوبہ بندی ہوئی، کس نے سہولت فراہم کی، کس نے اسلحہ اور کھانا پہنچایا اور کس نے کیمپ کے لیے جگہ دی۔
ان کے بقول ان معلومات کی بنیاد پر موسیٰ خیل، لورالائی، دکی اور اطراف میں آپریشن شروع کر دیا گیا ہے جو گزشتہ دو دنوں سے جاری ہے، جلد اس آپریشن کی تفصیلات بھی سامنے لائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موسیٰ خیل میں مسافروں کو قتل کرنے والا یہی گروہ دکی سے کوئلہ کانوں سے بھتہ لینے میں بھی ملوث ہے۔
گرفتار ہونے والوں میں ایک 16 سالہ لڑکا بھی شامل ہے جس نے دوران تفتیش بتایا کہ بچوں کو بھی اس کارروائی میں استعمال کیا گیا کیونکہ نقل و حمل کے دوران بچوں کی اس طرح تلاشی نہیں ہوتی۔ وہ انہیں بھی اسلحے کی ترسیل وغیرہ کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
اعتزاز گورائیہ کا کہنا تھا کہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے ایک اور دہشت گرد تنظیم کے ساتھ رابطے ثابت ہوئے ہیں جو وہاں پر موجود ہیں جن سے یہ اسلحہ بھی خریدتے ہیں۔
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ موسیٰ خیل واقعے کے بعد کچھ کڑیاں گمشدہ تھیں کیونکہ اس علاقے میں پہلے کبھی دہشت گردی کی کارروائی نہیں ہوئی تو یہ سب کے لیے اچنبھے کی بات تھی کہ یہاں پر یہ چیزیں کہاں سے آئیں۔ اب تحقیقات کے دوران ہم نے ان گمشدہ کڑیوں کا پتہ لگالیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ کس طرح دہشت گردوں نے چھوٹے جرائم کرنے والوں کو بھرتی کیا اور انہیں پیسے دیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے چھوٹے بچوں، سکول اور کالجز کے ایسے طالب علموں کو پچاس 50 ہزار روپے دے کر بھرتی کیا جن کے مالی حالات اچھے نہیں تھے۔
اس موقعے پر صوبائی وزیر پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ موسیٰ خیل اور بارکھان بڑے پرامن علاقے رہے ہیں، یہاں دہشت گردوں نے 25 اور 26 اگست کی رات کو نہتے لوگوں کو شہید کیا جو گھروں کو واپس جا رہے تھے، مقامی لوگوں کی گاڑیوں کو بھی جلایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ان دہشت گردوں کو بلوچ نہیں کہوں گا کیونکہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب، قوم اور قبیلہ نہیں ہوتا۔ گزشتہ روز مستونگ میں نہتے بچوں کو شہید کیا گیا۔ یہ کون سی آزادی ہے جو آپ لینا چاہتے ہیں۔ یہ وحشی پن ہے، اس کی کوئی مذہب اور اخلاقیات اجازت نہیں دیتا۔
’سی ٹی ڈی، لیویز، پولیس اور سکیورٹی ایجنسیاں کامیاب کارروائی پر مبارکباد کی مستحق ہیں، ریاست ان دہشت گردوں کے خلاف مزید گھیرا تنگ کرے گی۔ ریاست ماں کی طرح ہے وہ کوشش کر رہی ہے کہ بچے کو کسی طرح سے سمجھا لیں کہ آپ غلط راستے پر ہیں۔ اگر کوئی نہ سمجھے تو پھر اس کا ریاست کے پاس علاج ہے۔ ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ واپس آئیں اور ریاست کو تسلیم کریں۔‘
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ سرفراز بگٹی کی سربراہی میں مخلوط حکومت کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں پنجابیوں سے نفرت کا تأثر ختم کریں۔ حکومت صوبے میں امن قائم کر کے رہے گی۔
پریس کانفرنس کے دوران سوالات کے جواب دیتے ہوئے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز گورائیہ نے بتایا کہ کالعدم تنظیموں کا گٹھ جوڑ ہر جگہ نظر آ رہا ہے، انہیں باہر سے فنڈنگ ہو رہی ہے ۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے کہا کہ ’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دکی میں کوئلہ کان کے 20 مزدوروں کے قتل میں بلوچ لبریشن آرمی ملوث ہے۔‘ دکی حملے میں ملوث دہشت گردوں کی جانب سے پشتو زبان بول کر توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی۔‘
’ڈپٹی کمشنر پنجگور سے متعلق واقعے کی تحقیقات سے بھی پتا چلا کہ بی ایل اے اس میں ملوث ہے لیکن بی ایل اے نےاس کی تردید تھی۔ کالعدم تنظیمیں ایسے واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کرتیں جن میں وہ مقامی لوگوں کو نشانہ بناتی ہیں۔‘
مسلح تنظیموں کی جانب سے جدید اسلحہ کے استعمال سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بیلہ، مچھ اور کچھ دیگر علاقوں میں بھی کالعدم بی ایل اے نے ایم 14، ایم 16 ہتھیار، تھرمل ، ڈرون اور دوسرے جدید ہتھیاروں اور آلات کا استعمال کیا۔
اس سے قبل بی ایل اے چھوڑنے والے طالب علم طلعت عزیز نے بتایا کہ ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کی، سبی کے ایک کالج پڑھا اور اچھے نمبرز حاصل کر کے بلوچستان حکومت کی سکالر شپ پر پنجاب یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے شعبے میں داخلہ لیا اور اب وہ تھرڈ ایئر کے طالب علم تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں دوران تعلیم ان کا رابطہ بلوچ کونسل کے کچھ ایسے طلبہ سے ہوا جنہوں نے ان کی غلط ذہن سازی کی اور پھر کوئٹہ میں ساتھی طالب علم نے انہیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی دھرنے میں شرکت کے لیے آمادہ کیا۔ اس دوران ان کا کچھ ایسے لوگوں سے رابطہ بنا جو انہیں پہاڑوں پر لے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہاڑوں پر آپ کو نئی زندگی ملے گی مگر وہاں جا کر میں نے حالات اس کے برعکس پائے۔ انہوں نے ایک قوم کو دشمن کے طور پر متعارف کرایا اور کہا کہ ہماری جنگ ان کے ساتھ ہے۔
طلعت عزیز کا کہنا تھا کہ پہاڑوں پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گمراہ کرکے انہیں پنجابیوں اور نہتے لوگوں کو مارنے پر آمادہ کیا جارہا تھا جس کی وجہ سے مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلط راستے کا انتخاب کیا اس لیے میں وہاں سے بھاگ گیا ‘
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ نوجوان ایسے لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں جو ان کا مستقبل خراب کر رہے ہیں۔ میں ایک پڑھا لکھا نوجوان ہوں لیکن ان کی وجہ سے اپنا مستقبل گنوا دیا۔
صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ ’کالعدم تنظیمیں نوجوانوں کو ورغلا رہی ہیں۔ معصوم لوگوں کا قتل کرکے کون سی آزادی لینا چاہتے ہیں ، بندوق کی بجائے قلم کا سہارا لیں کیونکہ قلم ہی جینا سکھاتا ہے، افسر بناتا ہے اور عزت فراہم کرتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت نوجوانوں کو نہ صرف پاکستان کے اچھے بلکہ دنیا بھر کے بڑے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع کی فراہمی کے لیے اربوں روپے کی سکالر شپس دے رہی ہے۔ تعلیمی بجٹ میں تاریخی اضافہ کیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہو گی کہ طلعت عزیز اپنی تعلیم مکمل کریں اور ایک اچھے افسر بن کر اس دھرتی کی خدمت کریں۔
ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے کہا کہ ’ہمیں نہ صرف بلوچستان بلکہ پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بھیجے جانے والے طالب علموں پر بھی دھیان دینا چاہیے، انہیں ایسا ماحول فراہم کرنا چاہیے کہ یہ بھٹک نہ جائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں مسائل رہے ہیں، گڈ گورننس میں ناکامی کے ذمہ دار سیاسی لوگ ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کی یہ کوشش ہے کہ نوجوانوں کو وفاق کے قریب لائیں۔ اس سلسلے میں نوجوانوں کو ہنرمند بنانے اور اندرون و بیرون ملک تعلیم کے حصول کے لیے سکالر شپ فراہم کی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کی طرح صوبائی سطح پر ایک کثیرالجہتی پلان بنا رہی ہے جس میں تعلیم، صحت سمیت تمام شعبوں کی بہتری، ترقی اور گورننس کے ماڈل کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اعتزاز گورائیہ کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان سے پنجاب جانے والے سارے طلبہ اس طرح نہیں۔ بہت سے نوجوان اپنا مستقبل بہتر بنانا چاہتے ہیں لیکن کچھ تنظیمیں ان طلبہ کی ذہن سازی کرکے گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور ایسا ماحول بنایا گیا ہے کہ طلبہ کو یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں بڑی زیادتی ہو رہی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم پنجاب یونیورسٹی اور پنجاب حکومت کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں تاکہ اس کا تدارک کیا جا سکے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کسی کو مجرم ثابت کر کے سزا دلائیں، کوئی گرفتار ہو۔ ہمارا مقصد سسٹم کی خامیوں کو تلاش کرکے اسے دور کرنا ہے اور یہ کوشش کرنا ہے کہ نوجوان غلط ہاتھوں میں نہ جائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہر بات پر ڈنڈا نہیں اٹھانا چاہتی، لوگوں کو شدت پسندی کی طرف راغب ہونے سے بچانے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں، سکولوں کالجوں کا سروے کیا جا رہا ہے تاکہ سکیورٹی اداروں، حکومت اور پالیسی سازوں کو خامیوں کا اندازہ ہو سکے اور انہیں دور کیا جائے۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں کی سہولت کاری کرنے والوں کو ان کے کردار کے مطابق ڈیل کر رہے ہیں۔ مشکوک افراد کو فورتھ شیڈول میں ڈالنے کے لیے حکومت کو تجویز دی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فورتھ شیڈول میں نام شامل کرنے کا مقصد کسی کو سزا دینا نہیں بلکہ ان کی نگرانی کرنا ہوتا ہے۔